Thursday, 03 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Fuzail Raza
  4. Digital Trap

Digital Trap

ڈیجیٹل ٹریپ

نئے زمانوں کا کُرب اوڑھے ضعیف لمحے نڈھال یادیں، کبھی کبھی ہمارا تعاقب کرتی ہیں کہ انسان چاہتے ہوئے بھی جن سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ وہ کیسا زمانہ تھا کہ جب لوگ سچے اور مخلص ہوتے تھے اب جب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو لوگ بے مروت، مفادات اور خود غرضی میں مبتلا ہو گئے۔ اس دور میں جدید سہولیات تو موجود نہ تھی لیکن پھر بھی اطمینان تھا اور کائنات کی سب سے خوبصورت چیز یعنی محبت میسر تھی۔

علم و حکمت اپنے بزرگوں یا اساتذہ سے سیکھتے تھے اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا تھا۔ گویا کسی نے حکمت سیکھنی ہوتی تو دور کسی طبیب کا شاگرد ہو جاتا اور سالوں خدمت کے بعد کوئی مقام حاصل ہوتا تھا۔

کسی کو قاری بننا ہوتا تو کسی صاحب قرآن سے سالوں محنت کے بعد چند حرف سیکھنے کو ملتے لیکن ایسا سیکھاتے کہ پھر استاد بنا دیتے۔

زمانہ اول میں کسی کو کوئی ہنر سیکھنا پڑے تو میلوں دور کسی کاریگر کی شاگردی اختیار کرنی پڑتی۔ ماریں کھا کھا کر منجھے ہوئے کاریگر بنتے تھے۔

کسی کو علم و عرفان کی طلب ہو تو کسی شیخ کا مرید ہونا پرتا تھا پھر سالوں کی خدمت اور محنت کے باوجود شیخ کے رحم وکرم پر ہی طلب پوری ہو پاتی تھی۔

قصہ مختصر کہ کوئی بھی علم حاصل کرنے کے لیے جو پاپڑ بیلنے پرتے تھے انکا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن شاید یہی وجہ تھی کہ اس وقت کے صاحب علم لوگوں کا نام صدیوں بعد بھی زندہ و درکشاں ہے۔ وقت حاضر نے اس سیکھنے کے عمل کی مشکل اور مشقت کو تو ختم کر دیا لیکن درحقیقت اب صرف رسم باقی رہ گئی خود علم، ادب و اخلاقیات، مذہبی شعور معدوم ہوگیا۔ جو پرانے لوگوں میں بنفسِ نفیس پایا جاتا تھا۔

عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے
سمندروں کے لیے مچھلیاں بناتے تھے

میرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
میرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے

آج کی دنیا کو ترقی کے حوالے سے تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ۔ ترقی یافتہ وہ ممالک ہیں جو خوف پیدا کرتے ہیں۔ ترقی پذیر وہ ممالک ہیں جو خوفزدہ رہنے پر مجبور ہیں اور پسماندہ وہ ممالک ہیں جنہیں خطرے کے احساس سے بھی آشنائی نہیں۔ خوف اور خطرہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ہے۔ آج ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آخر ہم کس طرف کو جا رہے ہیں۔ ہم کہاں سے چلے تھے اور ہمارا حال کیا ہے۔ کیا ہمارے اندیشے اتنے بے سبب ہیں۔

ہم ایک دفعہ پہلے تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس آج بھی حالات اچھے نہیں اور دشمن پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج دشمن ہم کو کیسے تقسیم کر رہا۔ آج کی جنگ جدید جنگ ہے دشمن ہمارے اذہان سے کھیل رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر آج بچے بچے کے ہاتھ میں 7 انچ کا کھلونا پکڑا دیا گیا اور اس کھلونے نے نہ صرف بچوں بلکہ ہر عمر، ہر رنگ و نسل کے آدمیوں کو خود سے ایسا مانوس کر لیا ہے کہ اب اس کے بغیر کسی کا گزارا ممکن نہیں۔

کسی نے خوب کہا تھا کہ "ہم نے ناشکری سے تیری نافرمانی نہیں کی ہمیں اچھی امید سے دھوکہ دیا گیا"۔

ہمیں اس کھلونے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ ہر 5 منٹ میں جیب سے نکال کر دیکھتے ہیں کہ کہیں کوئی نوٹیفیکیشن تو نہیں آیا۔ دراصل اس میں موجود رنگ دار سکیم، مختلف قسم کی ایپلیکیشنز انسانی دماغ سے ایسا کھیلتی ہیں کہ اسے اپنا عادی بنا لیتی ہیں۔ سائنس خود اس بات کی شاہد ہے کہ موبائل فون کا ستعمال انسانی دماغ میں موجود نیورو ٹرانسمٹر ڈوپامائن (Dopamine) کو خارج کرتا ہے جو بار بار موبائل کو دیکھنے کے عمل کا سبب بنتا ہے۔ نتیجتاً ہم ڈیپریشن، Anxiety، صعوبت، افسردگی اور بےچینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج یہ بیماریاں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں پائی جاتی ہیں پھر ترقی پذیر اور اسکے بعد پسماندہ ممالک میں نہ ہونے کے برابر۔ اگر غور کیا جائے تو تاریخ میں ان بیماریوں کا زکر ہی نہیں ملتا کیونکہ اس وقت انکا وجود ہی نہیں تھا۔

اس کھلونے کے ظلمات کے قصے بھی کوئی کم نہیں۔ یہ بڑی بے رحمی سے ہماری سب سے قیمتی شے، ہمارا وقت چھین رہا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور بامقصد زندگی عطا کی جس کی گزر کے بعد فیصلہ جزا و سزا ہونا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے اپنے وقت کو صحیح سمت میں صرف کرنا بے حد ضروری ہے اور ہم دن کے 24 گھنٹوں میں سے 7 سے 8 گھنٹے سوشل میڈیا پر صرف کر رہے ہیں۔

اتنا اہم وقت اس کھلونے کے نام کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے ہم سے رشتوں کی قدر چھین لی، اس نے ہم سے بولنے کا سلیقا چھین لیا، اس نے ہم کو لاعلم کر دیا، اس نے دوستوں سے دوست چھین لیے، اس نے اپنوں کو غیر کر دیا، اس نے قریب رہنے والوں میں بھی فاصلہ بڑھا دیا، اس نے ہمیں قدرت کے کرشموں کو دیکھنے سے محروم کر دیا، اس نے ہم سے عظیم مقصد چھین لیا، اس نے عرفان پہ پردے ڈال دیے۔ اب نفرتیں ہر دہلیز پر پہنچ چکی ہیں۔ ہم اپنی وہ متاع جسے محبت کہتے ہیں وہ گوا چکے۔ برتری کے نشے میں گھروں کا سکون تباہ ہوگیا۔ اب اخلاق سے ہمارا تعلق صرف اتنا ہے کہ ہمارے گاوں میں ایک شحص کا نام اخلاق ہے اس کو بھی ہم نے خاقی بنا دیا۔ اب لوگ مرتے ہیں تو ہم با شعور لوگ اسکا منہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ سائنس و ٹیکنالوجی نے انسان کو رفتار دی لیکن یہ رفتار بے جہت و بے سمت ہے۔ آج کی راہیں کوئے جاناں کو نہیں جاتیں۔ انسان نے ذرے کا دل چیر کر طاقت دریافت کی ہے پر ذرے میں طاقت پیدا کرنے والے کو دریافت نہ کر سکا۔

مان لیا جائے کہ سوشل میڈیا نے معلومات کی باآسانی فراہمی یقینی بنائی ہے لیکن پھر بھی یہ ان معلومات کا ذخیرہ ہے جو دنیا کے ہر آدمی کی دسترس میں ہے۔ وہ علم کہاں ہے جو صدیوں سے کتابوں کی شکل میں محفوظ ہے۔ یا وہ علم کہاں ہے جو سینہ بہ سینہ، نسل در نسل چلا آرہا ہے۔ یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس علم کا 10 فیصد بھی سوشل میڈیا پر موجود نہیں۔ اس علم تک رسائی کے لیے ہمیں پرانے کتب خانوں کا رخ کرنا ہوگا یا اس پانی کا قطرہ بھی پانے کے لیے وہ قلب تلاش کرنا ہوگا جو ازخود سمندر ہو۔ جس میں غوطہ ذن ہو کر پیاس بجائی جائے سکے۔

علوم معرفت، کشف و کرامات، عرفان حق، روحانیت، تصوف، توکل، ترک نفس جیسے علوم جو ہمیں کائنات کے رازوں سے روشناس کراتے ہیں ان پر جس طبقے نے روشنی ڈالی ہے انکا تعلق کسی ٹیکنالوجی، کسی سائنس سے نہیں تھا نہ ہی اُنکے پاس آج کے دور کے جدید عالات تھے لیکن پھر بھی انکا لکھا ہوا ایک ایک لفظ آج کی نسل سمجھنے سے قاصر ہے۔ اب اگر غور کیا جائے تو ہماری سب سے مقدس الہامی کتاب قران مجید میں کتنے علم موجود ہیں ہم وہ بھی اب تک نہ سمجھ پائے۔ مثال کے تور پر ہمیں بچپن سے ہی سائنس میں یہی پڑھایا گیا کہ galilio کی تحقیق کے مطابق سورج ساکن ہے اور چاند اور زمین اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں لیکن اب جدید تحقیق کے مطابق سائنس اس نتیجے پر پہنچی کہ سب ستارے بشمول سورج اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں اور کسی نامعلوم سمت کی طرف جا رہے ہیں۔ حالانکہ 1400 سال پہلے قران مجید میں سورہ انبیا آیت 33 میں بتا دیا گیا تھا کہ "وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں"۔

عرش معلٰی پر ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے جو درحقیقت نور کا سمندر ہے اس میں سے چار نہریں نکلتی ہیں اور ان شاخوں سے تمام علوم نکلے ہیں۔ جن کی تعداد صاحب نظر کے حصاب سے 81000 ہے۔ جبکہ تحقیق کے مطابق آج تک جدت صرف 31000 علوم تک رسائی حاصل کر سکی۔

اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن کا زکر قران میں موجود ہے یا وہ باتیں، حتٰی کہ قیامت تک رونما ہونے والے واقعات جن کا علم خود رسول اللہﷺ نے اُمت کو دے دیا اور ہر ہر لفظ سچ ثابت ہوا اور کچھ ہونے کو ہے اور کیوں نہ ہو؟ کائنات کی خبر کائنات کے بنانے والے سے بہتر اور کون دے سکتا ہے۔ لیکن برسوں گزرنے کے باوجود سائنس اس علم تک رسائی نہ کر سکی۔

حسن لازوال کا مرقع جمال ہے۔ جب تک انسان اپنا راز دریافت نہ کرے وہ راز کائنات معلوم نہیں کر سکتا۔ یہ بیرونی سفر تیز رفتار ہے لیکن اندرونی سفر کسی عجلت کا تقاضا نہیں کرتا۔ انسان کی باطنی کائنات ظاہری کائنات سے زیادہ وسیع و عریض ہے۔

صاحب کَشف صدیوں سے اُن علوم، راز و نیاز پر روشنی ڈالتے آئے ہیں اُن معلومات کی تفصیل میں جایا جائے تو موضوع طوالت اختیار کر جائے گا بہرحال حاصل یہ لینا چاہیے کہ ہمیں اپنے علوم و تحقیق کا اصل محوّر اپنے دین اسلام کو ہی رکھنا چاہیے اِسی میں نسلِ انسان کی بقا ہے۔ ہمیں واپس پلٹنا ہوگا۔ جو بنیادیں ہم سے تَرک ہوگئیں دوبارہ اُنکے دامن سے وابستہ ہونا ہوگا۔ ہمیں دیے گئے وقت یا مہلت کی قدر کرنی ہوگی اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

آج بلند و بالا دعوے کرنے والا انسان اپنے نفع و نقصان کا بھی فیصلہ نہیں کر سکتا اور ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم دشمن کے بنائے ہوئے 7 انچ کے کھلونے سے نہیں لڑ سکتے اور دعوہ کرتے ہیں کہ دجال سے مقابلہ کریں گے۔ حضرت واصف علی واصف نے لکھا تھا کہ "جاننے والے سے پوچھ کے ماننا شروع کر دو، تمہارے پاس زندگی مختصر ہے"۔ دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ہمیں ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔

بقول علامہ اقبال:

عشق ناپید و خرد میگزردش صورتِ مار
عقل کوتابعِ فرمانِ نظر کر نہ سکا

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دُنیا میں سفر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شُعاوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحَر کر نہ سکا

اپنی حِکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا

Check Also

Do Neem Mulk e Khudadad (4)

By Shaheen Kamal