Aabna e Hormuz
آبنائے ہرمز

اگر آج عمران خان ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ڈونلڈ جے ٹرمپ کی دعوت میں جاتا اور اس فرعون کو عالمی امن انعام کے لیے نامزد کرتا تو ابھی تک تمام عاشقان اور محب وطن سڑکوں پے نظر آتے۔ ایوانوں میں امریکی امپورٹڈ ہونے کی قراردادیں منظور ہو چکی ہوتی اور نہ جانے کتنے مولانا اور مفتی یہودی ایجنٹ ہونے کے فطوے دے چکے ہوتے۔ ماضی والے معاہدے کی طرع جب امریکہ نے دوبارہ جنگ میں شامل ہونے اور اڈے طلب کرنے کا سوال کیا تو عمران خان نے Absolutely Not کا جواب دے کر ان کو حیران کر دیا اور صاف پیغام دیا کہ ہمیں غلامی قبول نہیں بلکہ ہم آخری سانس تک لڑیں گے۔ پھر دنیا نے دیکھا ک کیسے اپنوں کے ہاتھوں regime change کرایا اور اپنے ہی ملک جیل کاٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہ سب اتفاق نہیں ہے اور نہ ہی ایک ریاست کے اندرونی معملات ہیں۔
15 دسمبر 1971 جب شہید ذولفقار علی بھٹو نے یونائٹڈ نیشن کے اجلاس میں امریکی جارحیت کو قانونی شکل دینے کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان کو ختم بھی کر دیا جائے ہم پھر سے نیا پاکستان بنا لیں گے لیکن بندوق کے زور پہ آپکے آگے سر نہیں جھکائیں گے ہم پر بد سے بد معاہدے مسلط کر دیں لیکن ہم اسکا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہم واپس وطن جائیں گے اور لڑیں گے"۔
دنیا نے دیکھا کے بھٹو نے صفحے پھاڑے اور دلیری کے ساتھ وہاں سے نکلے۔ کسی کی زبان سے چوں تک نہ نکلی۔ ذولفقار علی بھٹو کی ہی کاوشوں سے ڈاکڑ عبدالقدیر خان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا گیا اور انکی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تیزی سے کام شروع ہوا جو امریکہ کے لیے درد سر بن گیا امریکہ کو معلوم تھا اگر پاکستان ایٹمی پاور بن گیا تو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بن جائے گا لیکن اسے خبر نہ تھی کہ بیج بویا جا چکا ہے۔
امریکہ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ بھٹو صاحب کا اپنے ہی ملک پاکستان میں زندہ رہنا ناسور ہوگیا اور دنیا نے دیکھا اپنی ہی فوج کے ہاتھوں اس بہادر کو تختہ دار پہ لٹکا کہ نشان عبرت بنا دیا گیا۔
1 فروری 1979 تہران کی سڑکوں پہ 50 لاکھ سے زائد لوگوں کے ہجوم نے اپنے لیڈر آیت اللہ خمینی کا استقبال کیا۔ وہ خمینی جو 14 سال سے زائد عرصہ ملک بدر رہے۔ 1979 کے انقلاب سے قبل رضا شاہ پہلوی کو ذہن میں منظم ایران کو جدید اور آزاد ریاست بنانے کا جنون سوار تھا ایران پوری دنیا میں شراب فروخت کرتا تھا، خواتین مردوں کو مساوی حقوق رکھتی تھی، جوا، زنا کے اڈے عام تھے، حجاب پہ پابندی لگا دی گئی۔ ایران دو حصوں میں بٹ گیا ایک آزاد خیال شاہ کا ٹولہ اور دوسری مذہبی گروہ۔
خمینی کی تحریک نے زور پکڑا ملک میں فساد شروع ہوگیا شاہ کی حکومت میں خمینی کو گرفتار کیا گیا پھر سال بعد رہا کر دیا لیکن تحریک نے مزید زور پکڑ لیا تو شاہ نے خمینی کو جلا وطن کر دیا۔ 14 سال بعد جب خمینی کی وطن واپسی ہوئی تو شاہ کی حکومت اور فوج نے انکے قتل کے منصوبے تک بنا رکھے تھے اور ان سب کے روحِ رواں امریکہ اور اسرائیل تھے لیکن لاکھوں لوگوں کے ہجوم کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا پھر بلآخر شاہ کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
امام خمینی اسرائیل مخالف تھے انہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب بڑپا کر دیا، اسلامی نظام کا نفاذ ہوا۔ چُن چُن کر اسرائیلی اور شاہ کے خامیوں کو سزائیں دی گئی ہر جانب مرگ بر امریکہ اور مرگ بر اسرائیل کے نعرے بلند ہوئے۔ نتیجتاً مغرب کے ساتھ تعلق خراب ہوئے اور ایران بین الاقوامی پابندیوں کا شکار ہوگیا اور معاشی بحران پیدا ہوگیا ایسے میں عراق کو دشمن کی پشت پناہی حاصل ہوئی اور ایران کے ساتھ جنگ چھڑ گئی۔ 8 سال کے بعد یہ جنگ بے نتیجہ ختم ہوئی پھر خمینی جون 1979 میں 87 برس کی عمر میں دنیا سے روانہ ہو گئے اعداد کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں نے اس جنازے میں شرکت کی ہجوم نے کفن کے ٹکرے تک محفوظ کرنے کی کوششیں کی۔ موجودہ اسلامی جمہوریا ایران خمینی انقلاب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جولائی 1979 میں صدام حسین ملک عراق کے صدر بنے تو انہوں نے عراق کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے پروگرام پر تیزی سے کام بڑھا دیا۔ 1981 میں اسرئیلی طیاروں نے عراق کے ایٹمی پروگرام پر میزائل گرا کر پلانٹ تباہ کردیے۔ یوں عراق کا ایٹمی پروگرام برسوں پیچھے چلا گیا 9 برس بعد صدام حسین نے اسرائیل پر میزائل حملے کیے اور انکی ناک میں دم کر دیا مشرقی وسطٰی میں عراق اسرائیل کے حلاف بڑی طاقت اور خطرہ بن گیا لہذا امریکہ نے قویت کے بہانے عراق پر جنگ مسلط کی پھر سخت پابندیوں میں جھکڑ دیا 2003 میں جب عراق کی معاشی حالت کمزور ہو چکی تو امریکہ نے باضابطہ عراق پر فوجی چڑھائی کر کہ قبضہ کر لیا اور اقوام متحدہ میں ثبوت بنا کر صدام حسین کو پھانسی دلوا دی گئی۔ یوں اسرائیل کے وجود کو لاحق ایک اور خطرہ ختم ہوا۔
1969 میں جب معمر قذافی نے لیبیا کی حکومت سنبھالی تو اوائل میں ہی امریکہ اور اسرائیل کے لیے درد سر بن گئے اور لیبیا میں قائم برطانوی اور امریکی فوجی اڈے ختم کر دیے قذافی نے لیبیا کے تیل درآمدات پر بھی غیر ملکی قبضہ مکمل ختم کر دیا تھا جس سے امریکہ اور برطانیہ کو بھاری نقصان ہوا۔ کرنل قذافی نے امریکہ اور برطانیہ کے خلاف بیشتر فوجی کاروایوں میں حصہ لیا اور ایسی اسرائیل مخالف فلسطینی تنظیموں کی پشت پناہی بھی خوب کی۔ شاہ فیصل اور ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر کرنل قذافی ایک نیا مضبوط اسلامی بلاک بنانے کے خواہش مند تھے۔
1969 میں جب اسرائیل نے فلسطین پر چڑھائی کر کہ بیت المقدس کو اپنے قبضے میں لے لیا تو اس کے دو برس بعد ایک عیسائی نے مسجد الاقصٰی کے صلاح الدین منمبر کو آگ لگا دی اس واقعے نے پورے عالم اسلام کو تکلیف پہنچائی اور اس پر شاہ فیصل بھی شدید غمگین ہوئے اور اسرائیل کو روکنے کے لیے اقدامات شروع کیے اور مراکش میں اجلاس منعقد کیا جس سے (او آئی سی) تنظیم تعاون اسلامی کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ اسرائیل کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری بھی شروع کر دی۔
سعودی عرب اور پاکستان کا باڈر اسرائیل کے ساتھ نہیں ملتا اس لیے انہوں نے مصر اور شام کی امداد شروع کی تا کہ اسرائیل پر چڑھائی کی جائے پھر جب مصر اور شام کی فوجوں نے اسرائیل پر حملہ کیا تو امریکہ نے اسرائیل کی مدد شروع کر دی اس کے بعد شاہ فیصل نے یورپ امریکہ، کینیڈا کا تیل بند کر دیا۔ مغرب کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ لوگ تیل چوڑی کرنے لگ گئے تھے۔ پھر تنگ آ کر امریکہ نے شاہ فیصل کو دھمکیاں دینا شروع کر دی لیکن شاہ فیصل نے کرارا جواب دیا پھر سویت اتحاد نے عربوں اور اسرائیل میں جنگ بندی کروا دی۔
1974 میں لاہور پاکستان میں دوبارہ اجلاس بلایا گیا جس کے روحِ رواں ذولفقار علی بھٹو، کرنل قذافی اور شاہ فیصل تھے۔ اس اجلاس نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ تینوں شخصیات اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بنی تو امریکہ کے نشانے پر آ گئے۔
امریکہ شاہ فیصل کی موت کو حقیقی رنگ دینے کے لیے شاہ فیصل کے بھتیجے کو ہی آلہ کار بنا کر اسی کے ہاتھوں شاہ فیصل کی موت کا پروانہ لکھوا دیا۔
یوں اسرائیل کو لاحق ایک اور خطرہ ختم ہوا۔
جب امریکہ اس طرح بے دریغ اور بے لگام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرے گا تو القائدہ اور حماس جیسی تنظیمیں بھی جنم لیتی ہیں۔ امریکہ اگر ریاستی دستے استعمال کر کہ فوجی کاروائی عمل میں لائے تو گلوبل امن ایوارڈ کا حقدار ٹھہرے اور اسامہ جیسا جنگجو بدلہ لینے کی کوشش بھی کرے تو عالمی دہشتگرد ٹھہرے۔
امریکہ اپنے ناجائز بچے کو ہتھیار فراہم کرے تو دفاعی تجارت اور کوئی ملک ایران کی مدد کرے تو خطے میں امن کے لیے خطرہ۔
امریکہ اگر ایران، عراق شام، لبنان افغانستان پر معاشی پابندی لگائے تو درست لیکن کوئی عرب ملک یورپیوں کا تیل ہی بند کر دے تو دھمکیاں جائز۔
اسرائیل حملے میں پہل کرے تو سیلف ڈیفنس لیکن کوئی اسلامی ملک ایسا کرے تو دہشت گرد کہلائے۔
شاید تاریخ دہرائی جا رہی ہے ایک بار پھر بچے کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ باپ شدید فکر مند ہے کیونکہ بچہ اب بڑا ہو رہا ہے اسے کھیلنے کے لیے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے کا شوق ہے اور باہر محلے کے بڑے بچے پہلے سے میدان میں موجود ہیں۔
وقت نے پھر وہی لا کھڑا کیا ہے نوبت تیل بند کرنے تک آ چکی ہے، جو امریکہ کی بڑی کمزوری ہے۔ دھمکیوں کا سلسلا شروع ہے، دیکھنا یہ ہے کہ امت مسلمہ اگھٹی ہوتی ہے یا ماضی کی طرع عظیم جانیں قربان کرکے نام نہاد اتحادی امن کے سفیر بن کہ اپنا پیٹ بھرنے میں لگ جائیں گے۔ لیکن اب وقت اس دہلیز پہ ہے کہ غفلت کی گنجائش نہیں اگر غفلت برتی گئی تو قدرت غافلوں کو بدل کر نئی قوم کو اقتدار میں لے آئے گی جیسا ماضی میں ہوتا رہا ہے لیکن اس صورت میں بھی فتح ہماری ہی ہوگی۔

