Pakistan Mein Buland Hoti Sharah Gurbat
پاکستان میں بلند ہوتی شرح غربت
غربت کا لفظ ہی نہ جانے کیوں ظلم و یاس کا استعارہ ہے۔ پاکستان یا دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی بھی کیسے بھی غربت کو جان اور سمجھ نہیں سکتا جب تک کہ وہ سطح غربت کو دیکھ نہ لے، عجب بات ہے نہ، اس بات کو یوں جانئیے معیار غربت کو جانچنے و ناپنے والے ادارے، اقوام متحدہ، ورلڈ بینک و مقامی سطح کے حکومتی و حزب اختلاف کے نمائندے، مختلف این جی اوز، مخیر حضرات اور نیشنل میڈیا پر قومی سطح کے مسائل کو موضوع بنانے والے صحافی اور اینکر غربت کے ذائقے کو کیسے چکھ و محسوس اور پا سکتے ہیں؟ کیوں کہ کچرا کنڈیوں میں بسنے والی آبادیوں کے پاس آ کر لگژری اور پر تعیش ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں سے اتر کر چند گھنٹے بھی کچرا کنڈی بنی آبادیوں میں گزارانا اقوام متحدہ کے نمائندوں، ورلڈ بینک و مقامی سطح کے حکومتی نمائندے، مختلف این جی اوز اور مخیر حضرات اور خاص طور پر میڈیا انڈسٹری کے بڑے صحافی غربت کے ذائقہ کو چند گھنٹوں کے لیے ناگواری سے دیکھ اور سونگھ تو سکیں گے مگر چکھ نہیں سکیں گے۔
کیوں کہ غربت کے ذائقہ کو چکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کچرا کنڈی بنی آبادیوں میں، شدید گرم و سرد موسم کی شدتوں کے ساتھ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ یا غیر فراہمی اور مکھیوں و مچھروں کی یلغار، اور کل کے دن میں "روزگار ملے گا کہ نہیں" جبکہ گھر کے داخلی معاملات میں بچوں کی تعلیم تو دور کی بات۔ صحت و اگلے دن کی خوراک کا واہمہ ہی سمے و غریب کی رات کو گزرنے نہیں دیتا۔
متذکرہ بالا اندیشوں وچاروں میں گھرا غریب و مفلس جب اگلے دن معاشرے میں نکلے گا تو حلقہ احباب میں باعث بحث و مباحثہ آٹے، دال، گھی و خوراک کے بھاو ہوں گے اور بجلی، گیس سمیت کچرا کنڈیوں میں پھیلتی بیماریوں کے علاج کے لئے معاشی ادائیگی کے تفکر ہی خالی جیب کے ساتھ غربت کے ذائقہ کو تھوڑا بہت محسوس کروا سکتے ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ کی ایلیٹ کلاس سے لے کر مقامی مخیر حضرات تک اور غربت کے موضوع پر بحث و مباحثہ کرنے والے چند گھنٹے تعفن زدہ کچرا کنڈیوں کی آبادیوں میں گزار کر دوبارہ لگژری اور پر تعیش گاڑیوں میں سوار ہو کر لاکھوں کی ماہانہ آمدن، ہر ممکن بہتر وسائل کے ساتھ جب بھی معاشرے میں نکلیں گے تو اپنے جیسے وسائل رکھنے والوں سے ہی اچھے میعیاری دفاتر و ڈرائینگ رومز یا پانچ ستاروں والے ہوٹلز میں بیٹھ کر گفت و شنید کریں گے۔
ایسے ماحول میں لامحالہ کبھی شمالی علاقہ جات کے دورے یا فلم بینی یا بڑھتی مہنگائی کے خطرات کو محسوس کرکے پاکستان کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے بیرون ملک مقیم ہونے کا سوچتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مندوبین سے ہمارے وطن عزیز کے نیشنل میڈیا تک سہولیات و عصر حاضر کے تمام پر تعیش ساز و سامان کے ساتھ غربت کا ذائقہ کیسے چکھ و محسوس کر سکتے ہیں؟ تو ستم یہ کہ غربت کے ترجمان بھی امیر تو غربت کیسے اور کیوں کر بیان کی جا سکے گی؟
سادہ الفاظ میں غربت کو جانئے اور سمجھئے، اقوام متحدہ اور عالمی بینک کے مطابق یومیہ دو اعشاریہ پندرہ ڈالر یعنی پاکستانی چھ سو روپے سے کم آمدن والے تمام افراد دنیا بھر میں سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو تین بنیادی ترین انسانی حقوق کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ خوراک، صحت اور تعلیم۔ خوراک میں صاف پانی اور اچھی غذا، صحت میں طبی سہولیات کی دستیابی اور تعلیم آگاہی، شعور اور غربت کی دلدل سے نکلنے کے لیے آنے والی نسلوں کا زیور۔
مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معیاری خوراک کی فراہمی و حصول تو دور کی بات پینے کا صاف فلٹر پانی تک دستیاب نہیں اور گدلا و آلودہ پانی کا استعمال غربت کو لازم ہو تو خواہ مخواہ صحت کے مسائل اور بیماریوں کی یلغار اور غریب غریب تر ہونے کے گرداب میں بیمار نسلوں کو بڑھاتے ہوے اور مفلسی و بھوک ہزار برائیوں و سماجی مسائل کو جنم دیتی ہے جن میں سر فہرست "بیمار سوچ زدہ معاشرہ، شدت و انتہا پسندی، بے راہ روی، جاہلیت، جرائم، خواتین و بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی" وغیرہ وغیرہ اور تعلیم کا حصول غربت میں بھیانک خواب کی طرح ہے کہ پیٹ میں کچھ ہوگا تو تعلیم بھی اچھی لگے گی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غربت کے اعداد و شمار بھیانک و خوفناک و سنگین ہیں۔ عصر حاضر میں اقوام متحدہ کے مطابق سطح غربت کی سب سے زیادہ آبادی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں ہے اور جنوبی ایشیا میں وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چالیس فی صد سے زائد آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی کاٹ رہے ہیں۔ عالمی بینک نے پاکستان میں رواں سال غربت کی شرح بڑھ کر 40.5 فیصد تک جانے کا انکشاف کیا ہے جبکہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد ضروری قرار دیا ہے۔ عالمی بینک کی ڈیویلپمنٹ آپ ڈیٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 16 لاکھ نئے نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع ناکافی قرار دیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2023 میں غربت کی شرح 40.2 فیصد تھی، بڑھتی غربت کی وجہ سست معاشی ترقی، بلند مہنگائی اور اجرت میں کمی ہے۔ اگلے سال مالی خسارہ کم ہو کر 7.3 فیصد کی سطح پر آجائے گا۔ پاکستان میں قرضوں کی شرح اس سال 72.4 فیصد سے 73.8 فیصد تک جانے کا تخمینہ ہے جبکہ اگلے مالی سال پاکستان کے ذمہ قرض کی شرح مزید بڑھ کر 74.7 فیصد تک جانے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقامی کرنسی کی ترسیل 14.2 فیصد سے بڑھ کر 16.1 فیصد تک پہنچ گئی جس کی وجہ سے بھی پاکستان میں غربت کی سطح و شرح میں اضافہ ہوا۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں غربت سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں تقریباََ 70 فیصد آبادی غریب ہے، اس کے بعد کے پی کے 48 فیصد اور سندھ 45 فیصد ہے۔ پنجاب میں غربت سب سے کم ہے۔ جس کی 30 فیصد آبادی غریبوں کے طور پر شناخت کی جاتی ہے۔ عالمی معیار غربت میں اہم ترین جزو یا معیار آبادی کے تناسب سے مکانوں و رہائش گاہوں کا نہ ہونا یا کم ہونا یا مکانوں میں گنجائش سے زیادہ آبادی کا مقیم ہونا بھی سطح غربت کے تعین میں اہم ترین عنصر ہے اور پاکستان میں بھی آبادی کے تناسب سے مکانوں کی تعداد خاصی کم ہے اور آبادیوں کا بڑا حصہ گنجائش سے کم مکانوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
وطن عزیز میں غربت پھیلنے و پھولنے کے خوفناک و ہولناک اعداد و شمار، غربت کے خاتمے کیلئے کام کرنے کی گنجائش کو بڑھا رہی ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اگر خوراک، صحت و تعلیم کے بنیادی ترین حقوق و مسائل کو مطلوبہ بجٹ و وسائل اور فعال سطح پر لے آئیں تو 40 فیصد سے زائد سطح غربت سے نیچے زندگی کاٹنے والے پاکستان کے عوام الناس کی شرح میں کمی ممکن ہے اور ممکنہ طور پر پاکستان میں پھیلتی "غربت، شدت و انتہا پسندی بیمارسوچ زدہ معاشرہ، بے راہ روی اور بچوں و خواتین کے حقوق کی پامالی، بلند شرح جرائم" جیسے سنگین مسائل کو کم اور سنجیدہ و مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے