Pakistan Ka Muashi Gardab
پاکستان کا معاشی گرداب
یوں تو پاکستان کے معاشی حالات اور گرداب و بھنور میں گھری پاکستانی معشیت کو بہت سارے معاشی و اقتصادی امور کے ماہرین اپنے اپنے انداز میں بتاتے اور سمجھاتے رہتے ہیں مگر آئیے پاکستان کے معاشی گرداب و بھنور کو موجودہ حالات، واقعات و عالمی و خطے کے تناظر میں راقم کے قلم سے سمجھنے کی کوشش کریں۔
خطے میں تیزی سے تبدیل ہوتے حالات اور وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے محل وقوع کو اگر دیکھا جائے تو عوامی جمہوریہ چین مستقبل میں بین الاقوامی تجارتی سمندری راستوں کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے مشرق وسطی اور افریقہ کی مارکیٹ میں مصنوعات کی ترسیل کے لئے خشکی کے قدیم راستے اور گوادر جیسی اہم ترین بندرگاہ سے تجارتی و مصنوعات کی ترسیل کے منصوبے کو جلد از جلد قابل عمل درآمد کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح ازبکستان اور تاجکستان جیسے بڑے اور اہم ممالک بھی اپنے محل وقوع میں قریب ترین اور زبردست سہولت والی گوادر بندرگاہ کو تجارتی مصنوعات کی ترسیل کے لئے استعمال کرنے کے خواہاں ہیں۔ کیوں کہ چین خشکی کے قدیم تجارتی راستوں کو بحال کرکے ازبکستان اور تاجکستان کو پاکستان تک بہترین مواصلاتی ذرائع فراہم کر سکے گا۔
دوسری طرف پاکستان کا اہم ہمسایہ ایران چین کے تعاون سے چاہ بہار کی بندرگاہ چین کے تجارتی مقاصد کے استعمال میں لانا چاہتا ہے تاکہ چین کی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ایران میں ہو سکے اور ایران چین کے ساتھ ساتھ ازبکستان اور تاجکستان کو بھی چاہ بہار بندرگاہ کو استعمال کرنے پر قائل اور قائم کرنا چاہتا ہے۔
معشیت کو فعال اور ترقی یافتہ بنانے کے لئے سنجیدہ اصول تو برآمدات کو بڑھانا اور درآمدات کو کم کرنا ہے تاکہ عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر کم سے کم انحصار کیا جا سکے۔ مگر برآمدات کو بڑھانے کے لئے مطلوبہ متعین اقدامات جن میں خاص طور پر غیر ملکی سرمایہ داری کا پاکستان میں آنا اہم اور بنیادی ترین نکتہ ہے، جو کہ لگ بھگ چین، ایران، پاکستان اور گوادر بندرگاہ والے معاملے کا بھی بنیادی ترین نکتہ ہے۔ دوسرا بہتر ممکن طریقہ کار ملکی ضروریات میں خود کفیل ہو جانا ہے تاکہ درآمدات کا بھاری بھر کم بوجھ کم سے کم کیا جا سکے مگر کیا پیٹرولیم، انسانی ادویات و زرعی ادویات وغیرہ وغیرہ جیسی اہم ترین اور بلا نعم البدل مصنوعات کے بغیر مملکت عظیم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معاشی پہیہ و عوام الناس کی سماجی و معاشرتی زندگی متاثر ہوئے بغیر چل پائے گی؟
معاشی گھمبیر مسائل کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے مرہون منت چلتی پاکستانی معشیت غیر ملکی سرمایہ کاری اور غیر ملکی سرمایہ داروں کے بغیر خاطر خواہ ترقی کے لئے ایک طویل جدوجہد کے سفر پر نبرد آزما رہے گی۔ درآمدات بڑھانے کے لئے سنجیدہ، صحت مند و مثبت و سازگار کاروباری و صنعتی پیداواری ماحول غیر ملکی سرمایہ کاری و غیر ملکی سرمایہ داروں کے لئے ہی اہم ترین و فیصلہ ساز کن نکتہ ہے۔
پاکستان اپنے محل وقوع میں بردار اسلامی عرب ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات و قطر وغیرہ سے بڑے اچھے بردارنہ تعلقات رکھتا ہے اور درج بالا اہم ترین ممالک نہ صرف پاکستان کو قرضے فراہم کرنے والے عالمی مالیاتی اداروں پر بھی اثر انداز ہو کر پاکستان کو مشکل اور اہم حالات میں قرضوں کے پروگرام دلواتے رہتے ہیں بلکہ خود بھی مختلف طریقوں سے قرضوں اور مالیاتی امداد کی ترسیل بر سبیل کرتے رہتے ہیں۔ یوں گویا اول الذکر عوامی جمہوریہ چین، ازبکستان، تاجکستان اور بردار اسلامی ممالک کی سرمایہ کاری اور سرمایہ دار اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تو پاکستان میں معشیت کو نہ صرف زبردست استحکام مل سکتا ہے بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے شیڈول و ری شیڈول سے بھی پاکستان کی معیشت خلاصی پائے گی۔
مگر جب گوادر جیسے اہم و سٹرٹیجک بندرگاہ والے شہر میں مخصوص منافرت و تقسیم پھیلانے والے غیر سیاسی و تقسیم کا پرچار کرنے والے بار بار ہڑتال و دھرنے کریں گے، تو عوامی جمہوریہ چین سرمایہ کاری اور سرمایہ داروں کو ایرانی چاہ بہار بندرگاہ سے منسلک کرنے کے عمل کی طرف جھکاو دیتا دکھائی دے گا۔ اسی طرح بردار اسلامی ممالک کی سرمایہ کاری کیسے محفوظ و منافع بخش تصور ہوگی جب وطن عزیز میں بہر صورت اقتدار نہ ملنے کی صورت میں حزب اختلاف کے سیاستدان ملک میں ہیجان و پر تشدد مظاہروں کو فروغ دیں اور غیر ملکی سرمایہ داروں کے لئے پاکستان میں بہتر سرمایہ کاری اور بڑھتے کاروباری مواقعوں، سازگار پیداواری حالات کو کم سے کم یا ختم کر دیں اور پھر ایسے ماحول میں دہشت گردی کی تازہ وارداتیں اور ماحول میں پھیلتی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں اور غیر سیاسی عناصر کس بنا پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن روکے جانے کے دلائل لاتے ہیں اور اسی اہم و نازک ترین پہلو کو دیکھتے ہوئے یقینی طور پر ملک میں معاشی بحران و معاشی استحکام کی عدم دستیابی کے ذمہ دار بھی معلوم ہوتے ہیں۔
اگر گزشتہ دو دہائیوں میں تیزی سے ترقی کرتی معشیتوں کو دیکھا جائے تو ترقی پذیر معشیتوں سے ترقی یافتہ معشیتوں تک کا سفر ان ممالک نے برآمدات اور پیداوار بڑھا کر ہی حاصل کیا ہے۔ بہتر برآمدات کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے معقول داموں اور ہنر مند لیبر کو بھی یقینی بنا کر ان ممالک نے غیر ملکی سرمایہ داروں کو بہتر اور سازگار کاروباری و پیداواری ماحول فراہم کیا اور عوام کے لئے بھی روزگار حاصل کرنے کے یکساں مواقع پیدا کئے۔ ویسے بھی انٹرنیٹ جیسے تیز مواصلاتی ذرائع نے گلوبل ویلج بن جانے والی 2024 کی دنیا کو برآمدات کے لئے بہت سہل، اثر انداز اور منافع بخش اور آسان پہنچ بنا دیا ہے۔
یوں گویا ملکی معیشت کو توانا و استحکام بخشنے کے لئے مطلوبہ سنجیدہ کاروباری ماحول ہی غیر ملکی سرمایہ کاری اور سرمایہ داروں کے لئے ہی سب سے اہم اور متعین معیار ہے اور متعین معیار کو مطلوبہ نتائج دلوانے تک لانے کے لئے سب سے اہم سیکیورٹی حالات، ہنگامہ آرائی سے دوری اور سیاسی و معاشرتی استحکام بنیادی و اہم ترین امور ہیں۔ مگر جب حزب اختلاف میں موجود سیاست دان ہی سیکیورٹی کے ذمہ داران اداروں کے خلاف منصوبہ بندی، محاذ آرائی اور سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف ذہن سازی جیسے مذموم افعال میں لتھڑے پاے جائیں گے تو مطلوبہ متعین معاشی ترقی کے لئے متعین سنجیدہ کاروباری ماحول کی عدم دستیابی، غیر ملکی سرمایہ داروں اور غیر ملکی سرمایہ داری کیسے پاکستان میں لائی جا سکے گی اور کیونکر پاکستان کی معیشت کو دوام مل سکے گا؟
وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مضبوط، مثبت و تندرست کاروباری ماحول کو یقینی بنانے والے اہم ترین ریاستی اداروں کو متنازعہ بنانے والے سیاسی و غیر سیاسی عناصر و عوامل و سیاستدان کا مجوزہ منشور تقسیم، ہنگامہ آرائی، افراتفری و ماحول کو ریاستی اداروں و ریاستی رٹ کے خلاف لے کر جانا تاکہ غیر ملکی سرمایہ داروں و غیر ملکی سرمایہ کاری کو پاکستان آنے سے روکا جا سکے اور غیر ملکی سرمایہ کاری و غیر ملکی سرمایہ داروں کی عدم دستیابی و موجودگی میں وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معاشی ترقی کیسے ممکن ہو سکے گی اور وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کا عام و غریب و سفید پوش طبقہ کیسے معاشی ترقی اور بہتر معیار زندگی کو پہنچ سکے گا؟
میں مایوس ہرگز نہیں ہوں اور امید بر حق ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذمہ داران نازک معاشی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاری و غیر ملکی سرمایہ داروں کو پاکستان میں مستحکم کاروباری ماحول دینے کے لئے مطلوبہ سنجیدہ اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں کوشاں و عمل پیہم ہوں گے اور وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان معاشی استحکام تک ضرور پہنچے گا۔