What We Can Know
وٹ وی کین نو

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ روس نے امریکی فوجی اڈوں پر حملے کے لیے جوہری میزائل پھینکا لیکن وہ کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے بحر اوقیانوس میں گر کے تباہ ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں ہائیڈوجن بم کا دھماکا ہوا اور 70 میٹر بلند سونامی کی لہریں اٹھیں۔ اس سے شمالی امریکا، یورپ اور افریقا کے ساحلی شہر تباہ ہوگئے۔ لندن، پیرس، روٹرڈیم، ہیمبرگ اور لاگوس جیسے شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور برطانیہ کی نصف آبادی سمیت 20 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔
یہ واقعہ 2042 میں پیش آیا۔ اس سے چھ سال پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی مزائلوں کی جنگ ہوچکی تھی اور اس میں بھی لاکھوں افراد مارے گئے تھے۔ اس کے آس پاس سعودی عرب اور اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں چھ جوہری ہتھیار استعمال کیے گئے۔
ان جنگوں کی وجہ سے ماحولیات اور انسانی زندگی پر مہلک اثرات پڑے۔ لیکن سورج کی روشنی رکنے سے عالمی درجہ حرارت میں دو ڈگری کمی ہوئی جسے ماہرین نے کلائمیٹ اوپرچونٹی قرار دیا۔
یہ خوفناک پیش گوئیاں برطانوی ادیب ایان میک ایون کے نئے ناول "وٹ وی کین نو" یعنی "ہم کیا جان سکتے ہیں" میں کی گئی ہیں۔
ممکن ہے کچھ دوستوں نے ایان میک ایون کا نام نہ سنا ہو۔ لیکن ان کے ناول اٹونمنٹ پر بنائی گئی فلم دیکھی ہوگی جس نے بافٹا ایوارڈ جیتا اور آسکرکے لیے بھی نامزد ہوئی۔ اس میں کیرا نائٹلی کے حسن کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ایان میک ایون نے اس کے علاوہ بھی کئی عمدہ ناول لکھے ہیں جن میں ایمسٹرڈیم پر انھیں بکر پرائز سے نوازا گیا۔
نئے ناول میں حالات کی خوفناک عکاسی ضمنی معاملہ ہے۔ اصل کہانی کچھ اور ہے جو سو سال بعد کے ادبی نقادوں کے لیے بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
ایک شاعر فرانسس بلنڈی نے 2014 میں اپنی بیوی ویوین کے نام ایک نظم کہی اور اس کی سالگرہ کی تقریب میں بلند آواز میں پڑھی تھی۔ وہ کہیں اور نقل نہیں ہوسکی۔ اس کا صرف ایک ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ تھا جو کہیں کھوگیا۔ اب ناول کا راوی اس کی کھوج میں لگا ہے۔ تقریب میں شریک لوگوں کی خط کتابت، ڈائریوں اور ڈیجیٹل ریکارڈ سمیت ہر طرح کا مواد چھان رہا ہے لیکن نظم نہیں مل رہی۔
کیا کسی نظم کا کھو جانا یا کوئی بھی ادبی واقعہ خوفناک عالمی صورتحال سے زیادہ اہم ہے؟
جی ہاں۔ اس نظم کی تلاش اس جانب اشارہ ہے کہ بڑے حادثات کے بعد بھی انسان کا جمالیاتی احساس برقرار رہتا ہے۔ وہ نظم محض ایک ادبی تحفہ نہیں بلکہ تہذیبی ورثے کی علامت ہے۔
چار سو صفحات کا یہ ناول گزشتہ ماہ شائع ہوا۔ نیویارک ٹائمز نے اسے انٹرٹینمنٹ آف ہائی آرڈر یعنی اعلی درجے کا لطف فراہم کرنے والا قرار دیا ہے۔

