Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. We Did OK, Kid

We Did OK, Kid

وی ڈڈ اوکے، کڈ

سنہ 1941 میں ایک اتوار کی سرمئی صبح، ایبراوون کے ساحل پر میرے والد کے دوست کلف میتھرز نے مجھے کھانسی کی گولی دی۔ ان دنوں، یعنی جنگ کے زمانے میں، ہمیں شاذ ہی کوئی مٹھائی یا ٹافی نظر آتی تھی۔ وہ راشننگ کا دور تھا۔ میں گھبراہٹ میں گولی ہاتھ سے گرا بیٹھا، جو ریت میں جا گری اور میں رونے لگا۔ میرے والد اور کلف ہنس پڑے۔ مجھے دوسری گولی دے دی گئی۔ میرے والد جھک کر مجھے دلاسا دینے لگے۔ بس اب اور نہیں رونا۔ کلف نے تصویر کھینچ لی۔ یہ میری اولین یادوں میں سے ایک ہے۔ اس وقت میں تین سال کا تھا۔

اور اب، ستاسی سال کی عمر میں، کبھی کبھار میں اس تصویر کو دیکھتا ہوں اور اس الجھن میں مبتلا ننھے بچے سے کہنا چاہتا ہوں: ہم نے ٹھیک کیا، بیٹے۔

We did OK, Kid.

بیشتر بچوں کی طرح میں بھی بے چینی اور الجھن کا شکار تھا۔ لیکن بڑے ہوتے ہوئے یہی تو ہوتا ہے۔ اتنا چھوٹا ہونا کہ زندگی کے کسی مفہوم کو سمجھ ہی نہ پانا۔ کھوئے ہوئے ہونے کا عجیب احساس، سنبھل نہ پانے کی بے چارگی، بہت برسوں تک میرے ساتھ رہی۔ مجھے حیرت ہے، یا شاید حیرانی بھی نہیں، گھبراہٹ؟ الجھن؟ ہاں، الجھن، کہ میں اب تک یہاں ہوں۔ اس کی کوئی وجہ میرے پاس نہیں۔

میرے اندر کہیں گہرا، پیدائشی مہر کی طرح، یہ احساس ہمیشہ رہا کہ میں کبھی بھی پوری طرح اس کا حصہ نہیں تھا۔

لیکن میں مضبوط مادے سے بنا تھا۔ میرے والد بھی ایسے ہی تھے، سیدھے سادے، بغیر کسی لفاظی یا نرمی کے۔ ان کی نصیحت ہمیشہ یہی تھی، بس کام کرو۔ سیدھے کھڑے رہو اور شکایت نہ کرو۔ یہ اچھی مشق تھی۔ ایک اور بات، زندگی سخت ہے۔ تو کیا ہوا؟ کبھی ہار نہ ماننا۔ شاید قدرے سخت، لیکن اسی نے مجھے ہمت دی۔ میرے بزرگ والد تھے، رچرڈ آرتھر ہوپکنز۔

اب ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کسی اور جہان میں موجود ہیں یا نہیں۔ کوئی بعد از مرگ زندگی ہے یا بس یہ خواہش والی باتیں ہیں۔ لیکن وہ میرے اندر گہرائی میں موجود ہیں، جیسے ٹوٹی ہوئی چینی مٹی کے ٹکڑے۔

یہ زندگی تنہا رہی ہے۔ ہمیشہ سے ایسی ہی ہے۔ لیکن کوئی گھبراہٹ نہیں، کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ بلکہ دلچسپ سفر رہا کیونکہ میں کوئی مظلوم نہیں۔ میں نے ان ٹوٹے ٹکڑوں کو استعمال کیا۔ تنہائی، اجنبیت، بے چینی، جو بھی یہ ریزے تھے اور اب میں ان کا شکر گزار ہوں۔ یہی چبھنے والے ذرات اور دھکے مجھے آگے بڑھاتے رہے۔ انھوں نے ہی مجھے یہاں تک پہنچایا۔

***

یہ دو بار آسکر جیتنے والے سر انتھونی ہوپکنز کی آپ بیتی کا ابتدائیہ ہے۔ اس کا عنوان وہی ہے جو میں نے اوپر انگریزی حروف میں لکھا: وی ڈڈ اوکے کڈ۔

کیسا اتفاق ہے کہ یہ کتاب مارگریٹ ایٹ ووڈ کی آپ بیتی کے ساتھ آج ہی شائع ہوئی ہے۔ دونوں ہم عمر بھی ہیں۔

برطانوی صحافی انتھونی لین نے اس کتاب پر تبصرے کا آغاز دلچسپ انداز میں کیا۔ انھوں نے لکھا: ہیرڈ، ہچکوک، ہٹلر، نکسن، پکاسو، ڈکنز، فرائیڈ، اسحاق رابن، جان کوئنسی ایڈمز، پوپ بینیڈکٹ، سینٹ ہال، سی آر لوئیس، کسی بھی اہم تاریخی شخصیت کا نام سوچیں۔ بہت امکان ہے کہ ہوپکنز نے اس کا کردار ادا کیا ہوگا۔

میں نے یہ سطریں پڑھ کر سوچا کہ ہوپکنز کو آسکر کن فلموں پر ملا؟ سائلنس آف دا لیمبز اور دا فادر پر۔ وہ تاریخی کردار نہیں تھے۔ ہوپکنز نے انھیں تاریخی بنادیا۔

یہ مزے کی بات پڑھنے کو ملی کہ ہوپکنز کو ان کے بچپن میں محلے کے لونڈے ایلیفنٹ ہیڈ کہہ کر چھیڑتے تھے۔ میرا سر بھی میرے جسم سے کافی بڑا ہے۔ جب مجھے بچپن میں اس کا "دکھ" ہوتا تو امی تسلی دیتیں، سر بڑا سردار کا، پاوں بڑا گنوار کا۔

بعد میں ہوپکنز نے ثابت کیا کہ واقعی وہ ایلیفنٹ ہیڈ ہیں، جیسا کہ شاید کچھ کچھ میں بھی ہوں۔ مثل مشہور ہے کہ ہاتھی کبھی نہیں بھولتا۔ ہوپکنز کو صرف اپنے مکالمے نہیں، پوری فلم کی کہانی کومے فل اسٹاپ کے ساتھ یاد رہتی تھی۔ لوگ اس بات پر حیرت اور رشک کرتے۔

ہوپکنز نے بتایا ہے کہ انھیں اداکاری کا شوق کیسے ہوا۔ وہ گیارہ سال کے تھے جب شیکسپئیر کے ڈرامے ہیملٹ پر بنی فلم دیکھی۔ باپ کی موت پر ہیملٹ کا دکھ ناقابل بیان تھا۔

برسوں بعد جب ان کے والد بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے خواہش کی کہ ہیملٹ سنایا جائے۔ ہوپکنز نے جذبات میں آکر روانی سے مکالمے بولنا شروع کردیے۔ طوفان تھما تو باپ نے ذرا سا سر اٹھاکر کہا، تم نے اتنا سب کیسے یاد کرلیا؟

ہوپکنز کی کتاب ساڑھے تین سو لیکن آپ بیتی ڈھائی سو صفحات کی ہے۔ شاید آپ سوچیں، یہ کیا بکواس ہے۔ لیکن یہی سچ ہے۔ آخری سو صفحات میں ہوپکنز کے بچپن سے بڑھاپے تک کی تصویریں ہیں یا وہ شاعری جو ہمارے پسندیدہ اداکار کو پسند ہے۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس میں ہیملٹ کا ایک حصہ بھی شامل ہے؟

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan