The Hunt For The Oldest Story
دا ہنٹ فور دا ورلڈز اولڈسٹ اسٹوری

ممکن ہے کہ آپ گلگامش کا نام لیں جو چار ہزار سال پہلی لکھی گئی۔ لیکن کیلی فورنیا یونیورسٹی کے استاد منویر سنگھ کا خیال کچھ اور ہے۔ انھوں نے یورپی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بعض کہانیاں ساٹھ ہزار سال پرانی ہوسکتی ہیں۔ ساٹھ ہزار سال؟
منویر سنگھ نے نیویارکر میں طویل مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے، دا ہنٹ فور دا ورلڈز اولڈسٹ اسٹوری، یعنی دنیا کی سب سے قدیم کہانی کی تلاش۔
منویر سنگھ نے مضمون کا آغاز دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ انھوں نے جارج ایلیٹ کے ناول مڈل مارچ کے کردار ایڈورڈ کاسابون کا ذکر کیا ہے جو اساطیر پر تحقیق کررہا ہے اور دا کی ٹو آل متھالوجیز یعنی تمام اساطیر کی کنجی کے عنوان سے کتاب مرتب کرنا چاہتا ہے۔ یہ کام ادھورا رہ جاتا ہے۔
منویر سنگھ نے کئی محققین کے نام بھی بتائے جنھوں نے اس کردار کی طرح سچ مچ یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا تمام عالمی اساطیر، یعنی قدیم ترین قصوں کے ماخذ یکساں ہیں۔ اس میں کسی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ واقعی دوردراز کے خطوں کی کہانیوں میں حیرت انگیز طور پر مماثلت پائی جاتی ہے۔
سب مثالیں پیش کرنا مشکل ہے لیکن برطانوی صحافی لارا اسپنی نے اپنی نئی کتاب پروٹو، ہاو ون اینشنٹ لنگویج وینٹ گلوبل میں قدیم زبانوں میں آسمانی خدا کا نام بیان کیا ہے۔ سنسکرت میں دیوس پتر یا پتا کا مطلب ہے آسمانی باپ۔ یونانی اساطیر میں یہ زوس پیٹر ہوجاتا ہے۔ الپس کے دوسری جانب یہ ڈیوس پٹیر ہے۔ روم کے اطراف میں لیٹن جیوپیٹر بن جاتا ہے۔ لٹوین اور ہٹی زبانوں میں دایوس پوہتر نام ہے۔
مجھے ایک نئی بات پتا چلی کہ انڈونیشیا کے قدیم قبیلے مینتاوائی کے ہیرو پگیتا سباو اور عیسی میں غیر معمولی مشابہت ہے۔ پگیتا سباو بھی بن باپ کے پیدا ہوا اور مرنے کے بعد جی اٹھا۔
میں اپنے ہائی اسکول کے طلبہ کو اسٹوری ایلیمنٹس پڑھاتا ہوں۔ ایک دن بارنس اینڈ نوبل پر کروسٹوفر بکر کی کتاب ملی جس کا نام تھا، سیون بیسک پلاٹس۔ ایسی اور کتابیں بھی بعد میں دیکھیں۔ پتا چلا کہ انسان ہزاروں سال سے چند بنیادی مرکزی خیالات کو بار بار نئی جزئیات کے ساتھ پیش کررہا ہے۔ مثلاََ غربت سے امیری، بلا سے مقابلہ، انتقام یا قربانی۔ ایک پسندیدہ مرکزی خیال کسی یتیم کا زندگی میں کامیاب ہونا ہے۔ سنڈریلا، سنووائٹ، جین آئر، سمبا، ہیری پوٹر، جان سنو، یہ سب ایسے ہی کردار ہیں۔
اوپر جس یورپی تحقیق کا ذکر کیا گیا، وہ 2023 میں برطانوی جریدے نیچر میں چھپی تھی۔ اس کے مطابق کہانیوں کے آٹھ قدیم ترین مرکزی خیالات پتھر کے زمانے کے ہیں۔ یعنی اس وقت کے جب انسان افریقا سے نہیں نکلا تھا۔ انسان نکل کر دوسرے براعظموں میں پہنچا تو ان کہانیوں کو ساتھ لے گیا۔ گلگامش کی اہمیت یوں ہے کہ اس کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔ اس سے پہلے انسان نے لکھنا نہیں سیکھا تھا اس لیے وہ تحریری صورت میں محفوظ نہیں۔

