Sach Kisi Ko Aziz Nahi
سچ کسی کو عزیز نہیں

ایک وقت تھا کہ معلومات کے ذرائع مختصر تھے۔ چھاپہ خانے نہیں تھے۔ بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ جانوروں کی کھال کے پارچوں پر تحریر لکھی جاتی تھی۔ ایسے مخطوطے بھاری بھی ہوتے تھے، مہنگے بھی ہوتے تھے۔ غربت بھی بہت تھی۔ امرا اور وہ بھی صرف لکھنا پڑھنا جاننے والے ہی ایسی کتاب خرید سکتے تھے۔ یا پھر گنتی کے چند کتب خانے تھے جنھیں حکمرانوں یا وزرا یا امرا کی سرپرستی ملتی تھی تو چلتے تھے۔
آج لوگ جن عقائد کے اسیر ہیں، وہ سب ویسے ہی ادوار میں بنے۔
ابھی تیس چالیس سال پہلے تک اخبارات میں کتابت ہوتی تھی۔ آج کی طرح تیز رفتاری سے ترجمے نہیں ہوتے تھے۔ میری نانی بہت مذہبی تھیں اور کتابوں کی بے انتہا شوقین۔ لیکن کتابیں ملتی ہوں تو پڑھیں۔ قرآن تھا یا نہج البلاغہ، زیادہ سے زیادہ تحفتہ العوام، مفاتیح الجناں اور بحارالانوار کا کوئی مختصر نسخہ۔ آخر الذکر تین کتابوں پر خود ایرانی کافی تنقید کرتے ہیں۔ اصول اربعہ کا نام نوے فیصد شیعوں کو معلوم نہیں ہوتا، پڑھتا کون ہے۔
ان حالات میں آیت اللہ تک کسے رسائی ہوتی۔ مجتہد کوئی کوئی ہوتا تھا۔ پیش امام یا ذاکرنے جو بتادیا، عام شیعہ اس پر ایمان لے آتا تھا۔
ہم سے پچھلی نسل تک کے لوگ ایسے تھے۔ میری نسل میں بھی بہت سے ایسے ہی ہیں۔ اگرچہ اب زیادہ کتابیں ترجمہ ہو رہی ہیں اور چھپ رہی ہیں لیکن بیشتر ایرانی حکومت کی فکرکے مطابق ہیں۔ دائرے سے باہر نکل کر دیکھنے سوچنے والے کم ہیں۔
ہم مطالعہ پاکستان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہماری اسلامیات کی کتابیں بھی ایسی ہی ہیں۔ سنیوں کو سعودی عرب نے اور شیعوں کو ایران نے اپنی مرضی کا مطالعہ اسلام پڑھایا سکھایا ہے۔ اصلی مذہب اور اصلی تاریخ نہ صرف بہت مختلف ہے بلکہ بہت تکلیف دہ بھی ہے۔ قدیم تاریخ کی کتابوں میں بھی جھوٹ لکھا ہوگا لیکن اس جھوٹ کو مفاد پرستوں نے اپنے مطلب کی خاطر توڑمروڑ دیا ہے۔
پچھلی نسل تک کے مسلمانوں نے اگر کچھ وہم پالے ہوئے تھے اور اپنے ملا یا ذاکرکے جھوٹ سچ کو ایمان بنایا ہوا تھا تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ ان کے پاس معلومات کے ذرائع اور وسائل نہیں تھے۔ لیکن اب ہر بہانہ ختم ہوچکا ہے۔ ننانوے فیصد کتابیں انٹرنیٹ کی وجہ سے میری آپ کی دسترس میں ہیں۔ غیر زبان کا ترجمہ منٹوں میں کیا جاسکتا ہے۔ سچ جھوٹ جاننے میں ہفتے اور مہینے نہیں، لمحے لگتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت اپنی زبان، ذات، فرقے اور وطن کے لیے جذباتی ہوتی ہے۔ جیسے ہی کسی معاملے میں کمی کسر ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے، لوگ بھڑک جاتے ہیں۔ سچ کسی کو عزیز نہیں۔ سچ جاننے کی خواہش بھی نہیں۔
ریشنلزم یہ ہے کہ آپ تصور خدا، وحی، تخلیق کائنات کی دیومالائی داستانوں، معجزات، جن اور فرشتوں، پریوں اور حوروں کی کہانیوں کو مسترد کردیں۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ آپ صرف ان قصوں پر غور کریں جو آپ کے اپنے فرقے نے گھڑ رکھے ہیں۔ مسترد کرنے کو کون کہہ رہا ہے، صرف غور کریں۔ دوسرے کے سامنے نہیں، اپنے دل میں سوال اٹھائیں۔ کیا آپ خود سے بھی سچ نہیں بول سکتے؟
اہل سنت اور اہل تشیع کی معتبر ترین کتابوں میں اتنی مضحکہ خیز باتیں ہیں کہ انھیں پڑھ کر آپ خود ہکابکا رہ جائیں گے۔ کوئی آپ کا عقیدہ نہیں بدلنا چاہتا۔ صرف اصلی اور قدیم نسخوں تک پہنچنے کی کوشش کریں، سچ خود آپ کو ڈھونڈ لے گا۔