Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Peshgoi

Peshgoi

پیش گوئی

ایک فلم 1992 میں ریلیز ہوئی جس کے مرکزی کرداروں میں رشی کپور اور دیویا بھارتی شامل تھے۔ ایک نوجوان بھی تھا جس کا پہلا سین شاید انٹرویل کے بعد آیا تھا۔ وہ فلم دیکھ کر میرے دوست شباہت حسین نے کہا کہ اس بندے میں کچھ خاص بات ہے۔ یہ بہت بڑا سوپراسٹار بننے والا ہے۔ اس فلم کا نام دیوانہ تھا اور نئے ہیرو کا نام شاہ رخ خان۔ مجھے آج بھی شباہت کی بات یاد آتی ہے۔

کراچی کے اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں نومبر 1996 میں کراچی وائٹس اور راولپنڈی کا میچ تھا۔ میرے ایک دوست عابد منصور کرکٹ کے دھتی ہیں۔ وہ میچ دیکھنے گئے اور آکر بتایا کہ راولپنڈی کے ایک لڑکے نے بہت تیز بولنگ کی۔ اسے پاکستان ٹیم میں سلیکٹ ہونا چاہیے۔ کوئی اختر نام تھا۔ میں نے کہا کہ ندیم اختر ہوگا کیونکہ وہ انھیں دنوں ایک اننگز میں دس وکٹیں لے کر ریکارڈ بناچکا تھا۔ لیکن عابد کو نام یاد آگیا کہ اس کا نام شعیب ہے۔ ایک سال بعد شعیب اختر نے انٹرنیشنل ڈیبو کیا، اینڈ ریسٹ از ہسٹری۔

جن دنوں ہم جیو کی طرف سے دبئی اسٹیشن پر کام کررہے تھے، بینظیر بھی وہیں تھیں۔ کسی موقع پر ان کا انٹرویو کرنے کے لیے ہمارے دوست نسیم حیدر کو بھیجا گیا۔ نسیم پروڈیوسر ہیں لیکن دبئی میں تب کوئی رپورٹر نہیں ہوتا تھا اس لیے انھیں جانا پڑا۔ انھوں نے دلچسپ بات بتائی کہ بینظیر نے انٹرویو کے بعد انھیں اپنی کتاب دستخط کرکے دی تو منع کرتے رہے کہ رہنے دیں، یہ میرے پاس ہے۔ آج اس کتاب کی قدر کا اندازہ لگائیں۔

خیر، نسیم نے واپس آکر کہا کہ بینظیر بلاول کو سیاست کے لیے تیار کررہی ہیں لیکن مجھے آصفہ میں ان کی جھلک نظر آئی۔ اس وقت آصفہ بارہ تیرہ سال کی بچی تھیں۔ لیکن ان کی ذہانت نے نسیم کو متاثر کیا۔ فرنٹ پر ابھی بھی بلاول ہی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ نسیم کا خیال درست تھا۔

یہ محض اتفاق ہے کہ شباہت، عابد اور نسیم، تینوں انچولی والے ہیں۔ بلکہ عابد اور نسیم تو امروہے کے بالے بھی ہیں۔

تندور گرم ہے تو میں بھی روٹی لگالوں۔ یعنی اپنی ایک پیش گوئی کی شیخی ماردوں۔ افتخار چوہدری والی وکلا تحریک کا آغاز ہوا تو جیو اس میں پیش پیش تھا۔ میں نیوزروم کا واحد شخص تھا جو اسے ایجنسیوں کا ٹٹو قرار دے رہا تھا۔ اور دوستوں کو یہ بات نہ یاد ہو لیکن اینکر محمد جنید تسلیم کرتے ہیں کہ میں اسے بہت جلد پہچان گیا تھا۔ انھیں اس لیے یاد ہے کہ وہ تب اس کے حق میں مجھ سے بحث کرتے تھے۔

ایک دن انھوں نے جھنجھلاکر پوچھا، آخر آپ چیف جسٹس کو اتنا برا کیوں سمجھتے ہیں؟ میں نے جواب دیا، مجھے افتخار چوہدری میں ضیا دجال کا عکس نظر آتا ہے۔

ضیا الحق مرگیا، افتخار چوہدری چلا گیا لیکن دجال کا بھوت قیامت تک شاہراہ دستور پر بھٹکتا رہے گا۔ اسے بھی سچی بھوش وانی سمجھیں۔

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez