Museums Mein Insani Dimagh
میوزیمز میں انسانی دماغ

ہر سال کوئی چالیس لاکھ افراد واشنگٹن ڈی سی کا نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری دیکھنے آتے ہیں۔ لیکن شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ اس عجائب گھر میں ڈھائی سو انسانی دماغ بھی محفوظ ہیں۔
یہ دماغ سو سال پرانے ہیں اور ان کی نمائش نہیں کی جاتی۔ ان میں ایک تہائی دماغ امریکیوں کے ہیں اور باقی دنیا بھر سے جمع کیے گئے۔
یہ کام 1900 میں میوزیم کے کیوریٹر الیس ہرڈلچکا نے شروع کیا۔ وہ نسل پرست تھا اور سفید فاموں کو بہتر نسل خیال کرتا تھا۔ اس خیال کی تصدیق اور تحقیق کے لیے اس نے رنگدار نسل کے انسانوں کی باقیات جمع کرنا شروع کیں۔ اس نے نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر سے انسانی دماغ اور دوسرے اعضا حاصل کیے۔
ہرڈلچلا سے پہلے اور بعد میں بھی کچھ نہ کچھ سلسلہ جاری رہا۔ میوزیم میں سب سے پرانے باقیات 1840 اور سب سے نئے 2000 کے عشرے کے ہیں۔ اس ذخیرے میں تیس ہزار سے زیادہ باقیات موجود ہیں جنھیں 80 سے زیادہ ملکوں کے اسپتالوں، مردہ خانوں، جنگ کے میدانوں اور قبرستانوں سے جمع کیا گیا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ نے اس بارے میں مسلسل اور متعدد رپورٹس شائع کی ہیں۔ اب میوزیم کا کہنا ہے کہ وہ ان باقیات کو واپس کرنے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ چھ ہزار سے زیادہ واپس بھی کرچکا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وارثوں تک کیسے پہنچا جائے کیونکہ بہت سے وارثوں کو اس بارے میں علم ہی نہیں۔
واشنگٹن کا میوزیم اپنی نوعیت کا واحد معاملہ نہیں۔ دنیا کے متعدد عجائب گھر اور ادارے انسانی دماغوں اور باقیات کو جمع کرتے رہے ہیں۔ جدید دور میں انھوں نے غلطی کا اعتراف کرکے یہ سلسلہ بند کردیا ہے۔ ان میں جرمنی، فرانس، برطانیہ اور آسٹریلیا کے ادارے شامل ہیں۔
لیکن اب بھی کم از کم تین ادارے ایسے ہیں جن کے پاس بڑی تعداد میں انسانی دماغ موجود ہیں۔ ان میں امریکی ریاست میری لینڈ کا نیشنل میوزیم آف ہیلتھ اینڈ میڈیسن، ریاست کنیٹی کٹ میں ژیل یونیورسٹی کا کشنگ سینٹر اور بنگلور انڈیا کا برین میوزیم شامل ہے۔
ژیل یونیورسٹی کے کشنگ سینٹر میں 400 اور بنگلور کے برین میوزیم میں 600 دماغ رکھے ہیں جو دراصل دماغی چوٹ، ٹیومر یا دماغی بیماریوں کے کیسز ہیں۔ بنگلور کا برین میوزیم غالباََ واحد مقام ہے جہاں عام لوگ انسانی دماغوں کو دیکھ اور چھو بھی سکتے ہیں۔
ممکن ہے آپ نے پڑھا ہو کہ دنیا کے عظیم ترین سائنس دانوں میں سے ایک، آئن اسٹائن کا دماغ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ آئن اسٹائن نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن ان کے پوسٹ مارٹم کے دوران پرنسٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر تھامس ہاروے نے دماغ نکال لیا۔ جواز یہ پیش کیا کہ ایسا تحقیق کے لیے کیا گیا۔
ڈاکٹر ہاروے نے آئن اسٹائن کے دماغ کو کاٹ کر 240 سلائیڈز تیار کیں اور انھیں مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز کو بھیج دیا۔ یعنی آئن اسٹائن کا مکمل دماغ اب کسی ایک جگہ نہیں بلکہ مختلف مقامات پر بکھرا ہوا ہے۔

