Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Malala Ki Kitab Ki Taqreeb e Runumai

Malala Ki Kitab Ki Taqreeb e Runumai

ملالہ کی کتاب کی تقریب رونمائی

پیر کو ملالہ کا پروگرام آٹھ بجے شروع ہونا تھا۔ لیکن عصر ملک نے مختلف شیڈول بھیجا جس کے مطابق ساڑھے پانچ بجے وی آئی پی مہمانوں کی آمد شروع ہونی تھی۔ میں چار بجے نکلا کیونکہ سلور اسپرنگ گھر سے دور ہے اور اس وقت ٹریفک بہت ہوتی ہے۔ سوا پانچ تک منزل پر پہنچ گیا۔ مناسب پارکنگ بھی مل گئی۔ حیرت انگیز طور پر ساڑھے پانچ بجے لمبی لائن لگ گئی۔ لیکن کسی کو اندر داخل نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔ سب لوگ فلمور آڈیٹوریم کے باہر سڑک پر اطمینان سے کھڑے رہے۔

کچھ دیر میں انتظامیہ کے ارکان آئے اور کہا کہ وی آئی پی دعوت ناموں اور ٹکٹ والے ایک طرف ہوجائیں اور عام ٹکٹ والے دوسری جانب۔ وی آئی پیز کی فہرست ایک خاتون کے ہاتھ میں تھی اور وہ ڈرائیونگ لائسنس سے نام کی تصدیق کررہی ہیں جو یہاں کا قاعدہ ہے۔ میں نے اکڑتے ہوئے اپنا نام بتایا تو انھوں نے کہا، آپ کا نام فہرست میں نہیں۔ برائے مہربانی یہاں سے دفع ہوکر غریبوں کی قطار میں لگ جائیں۔ خیر، یہ الفاظ تو نہیں کہے لیکن میں یہی سمجھا۔

مجھے عصر کو بتاتے ہوئے شرم آئی کہ آپ نے وی آئی پی دعوت نامہ بھیجا لیکن انتظامیہ کو بتانا بھول گئے۔ اس سمجھ دار نوجوان نے خود پوچھا کہ کدھر رہ گئے؟ مجھے بتانا پڑا کہ انتظامیہ مقررہ وقت سے پہلے نہیں گھسنے دے رہی کیونکہ ان کے پاس میرا نام نہیں۔ عصر ملک میری خاطر باہر آئے، جن خاتون کے پاس فہرست تھی، انھیں بتایا اور تب مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ عصر مجھے مبشر زیدی کے نام سے جانتے ہیں جبکہ ڈرائیونگ لائسنس پر میرا نام مبشر علی ہے۔ میں ان خاتون کو لاسٹ نیم علی بتاتا رہا اور وہ انکار کرتی رہیں۔

اندر داخلے کی اجازت ملی تو وہاں بھی ایک قطار تھی۔ وی آئی پیز باری باری ایک کمرے میں جارہے تھے جہاں ملالہ ان کا استقبال کرتیں اور تصویر بنواتیں۔ وہیں ان سے مختصر گفتگو کا موقع ملا۔ میں نے عصر سے کہا کہ ان دو کتابوں پر دستخط بھی کروانے تھے۔ انھوں نے کہا کہ دستخط شدہ کتابیں باہر رکھی ہیں۔ وہ آپ کو دلوادیتا ہوں۔ میں نے کہا، نہیں۔ مجھے سادہ خوشبو دستخط نہیں چاہیے۔ دو نام بھی لکھوانے ہیں۔ انھوں نے کہا، ابھی ملالہ میٹ اینڈ گریٹ میں مصروف ہیں۔ میں تقریب کے بعد یہ کام کروادوں گا۔ لیکن وہ گفتگو شروع ہونے سے پہلے ہی لے آئے۔

ایک مزے کی بات یہ ہوئی کہ آڈیٹوریم میں ملالہ کی آمد سے پہلے وہاں گانے بج رہے تھے۔ امریکیوں کو اردو ہندی کا فرق کیا معلوم۔ انھوں نے انڈین گیت لگادیے۔ لوگ ایسے جھوم رہے تھے جیسے ملالہ کی مدح میں پاکستانی گیت لگے ہوئے ہوں۔

میرے برابر میں جو خاتون آکر بیٹھیں، انھوں نے بتایا کہ اس ماہ وہ دوسرے نوبل لوریٹ کی تقریب میں شریک ہورہی ہیں۔ اس سے پہلے پولینڈ کے لیچ ویلیسا امریکا آئے ہوئے تھے اور ان کی تقریب فلاڈیلفیا میں تھی۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا، لیچ ویلیسا زندہ ہیں؟ وہ ہنس کر بولیں، مجھے بھی حیرت ہوئی تھی۔ وہ 82 سال کے ہوچکے ہیں لیکن بہت زیادہ زندہ ہیں۔

پروگرام میں کچھ دیر تھی تو ان سے بات چیت چلتی رہی۔ میں نے پوچھا، آپ فلاڈیلفیا سے اس پروگرام کے لیے آئی ہیں؟ انھوں نے کہا، نہیں میں واشنگٹن ہی میں رہتی ہیوں۔ وہاں کسی کام سے گئی تھی۔ پھر ملالہ کی تعریفیں کرنے لگیں کہ میں نے اس کی پہلی کتاب بھی پڑھی ہے اور اس کی پرستار ہوں۔ میں نے انھیں ملالہ کے ساتھ اپنی تصویر دکھائی تو چلا اٹھیں اور بار بار کہتی رہیں، میں آپ سے جیلس ہورہی ہوں۔

ملالہ کی کچھ گفتگو کا ذکر میں نے پچھلی پوسٹ میں کیا تھا۔ بعض باتیں بعد میں یاد آئیں۔ انھوں نے بتایا کہ عصر سے تعارف ہوا تو انھوں نے بتایا کہ ان کا کرکٹ سے تعلق ہے۔ وہ سمجھیں کہ عصر کرکٹر ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ انھوں نے کرکٹ نہیں کھیلی بلکہ بورڈ کے ملازم ہیں۔ ملالہ نے امریکیوں کو بتایا کہ کرکٹ بہت اچھا کھیل ہے۔ بیس بال کے مقابلے میں بہت زیادہ دلچسپ ہے۔ اس میں دل لگائیں۔ میرا جی چاہا کہ انھیں بتاوں، پچھلے ورلڈکپ میں امریکا نے پاکستان کو ہرادیا تھا۔

پاکستان میں رہنے والے عام پاکستانیوں نے شاید ہی کبھی ملالہ کو سامنے بیٹھ کر گفتگو کرتے دیکھا ہو۔ اسی لیے سازشوں اور ایجنٹی والی باتیں کرتے ہیں۔ میں ان کی گفتگو سن کر بہت خوش ہوا کیونکہ وہ اسکرپٹڈ نہیں تھی۔ وہ کئی جگہ جواب دیتے ہوئے ہچکچائیں۔ کبھی بات تبدیل کی۔ آڈیئنس کے سوالات پر ایسے جواب دیے کہ لوگ ہنستے رہے۔ لیکن کہیں عامیانہ انداز اور الفاظ استعمال نہیں کیے۔ معلوم ہورہا تھا کہ آکسفرڈ یونیورسٹی میں پڑھی ہوئی، مہذب اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے والی خاتون بات کررہی ہیں۔ اتنے ایلوکینٹ اور آرٹیکیولیٹ تو بہت سے انگریز اور امریکی بھی نہیں ہوتے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz