Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Handmaids Tale

Handmaids Tale

ہینڈ میڈز ٹیل

سوویت یونین ابھی ٹوٹا نہیں تھا۔ سرد جنگ جاری تھی۔ امریکا دنیا میں جمہوریت اور آزادی کا علم بردار تھا۔ [اب بھی ہے] ایسے میں کون پیش گوئی کرسکتا تھا کہ اس ملک میں کبھی آمریت کا خدشہ پیدا ہوگا۔ لیکن ایک ادیبہ کو بہت دور کی سوجھی۔ انھوں نے ایک ناول لکھ مارا۔ اس میں مستقبل کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ ادیبہ نے سترھویں صدی کے سخت گیر انگلینڈ، اسلامی ملکوں میں خواتین کے ساتھ سلوک اور مغرب میں مسیحی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کو ذہن میں رکھ کر تانا بانا بنا تھا۔

وہ ناول 1985 میں چھپا۔ سنجیدہ نقادوں نے اسے مسترد کیا۔ ناولسٹ میری میکارتھی نیویارک ٹائمز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا، او مارگریٹ، تم نے بہت مبالغہ کیا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہونے والا۔

لیکن توقعات کے برخلاف ناول بہت فروخت ہوا۔ اگلے سال بکر انعام کے لیے بھی نامزد ہوا۔ لیکن 2016 میں صدر ٹرمپ کے انتخاب پر اچانک اسے دوبارہ پذیرائی ملی اور لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہونے لگا۔ ہولو نے اس پر سیریز بنائی جو شاید آپ نے بھی دیکھی ہو۔ ناول کا نام ہینڈ میڈز ٹیل ہے۔

ان ادیبہ کا نام مارگریٹ ایٹ ووڈ ہے اور امریکا یا انگلینڈ کے بجائے ان کا تعلق کینیڈا سے ہے۔ چھ عشروں سے وہ ناول، افسانے، نظمیں، تنقیدی مضامین، بچوں کی کتابیں، کامکس، ٹی وی اسکرپٹس اور نہ جانے کیا کیا لکھ رہی ہیں۔ پچاس سے زیادہ کتابوں پر ان کا نام چھپ چکا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے ایک پچھلی تحریر میں بتایا، انھوں نے کبھی اپنی یادداشتیں نہیں لکھی تھیں۔ یہ کارنامہ انھوں نے اب انجام دیا ہے۔ ان کی آپ بیتی بک آف لائیوز یا زندگیوں کی کتاب آج شائع ہورہی ہے۔ اس کے صفحات کی تعداد 624 ہے۔ کیا یہ زیادہ ہے؟ 85 سالہ ادیبہ کے پاس کہنے کو اتنا کچھ تو ہونا ہی چاہیے تھا۔

کسی نے مارگریٹ ایٹ ووڈ سے پوچھا، آپ نے یادداشتیں اتنی تاخیر سے کیوں لکھیں۔ انھوں نے دو لفظوں میں نہایت بلیغ جواب دیا، پیپل ڈائیڈ۔ یعنی لوگ مرگئے۔ واقعی زندہ لوگوں پر لکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ ایٹ ووڈ نے اپنی کتاب میں اسکور سیٹل کیے ہیں۔ یعنی جس نے ان کے ساتھ جو کیا، اس کا کچا چٹھا لکھ کر حساب برابر دیا۔

کتاب بازار میں آنے سے پہلے میرے ہاتھ کیسے لگی اور میں نے اس کے کئی باب کیسے پڑھ لیے، یہ قصہ رہنے دیں۔ بس ایک ٹکڑا ترجمہ کرکے پیش کررہا ہوں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کتاب کے نام کی تشریح کرتا ہے۔

***

ہر لکھنے والا کم از کم دو وجود رکھتا ہے۔ ایک وہ جو زندہ وجود ہے اور دوسرا وہ جو لکھنے والا وجود ہے۔ کتاب کی تقریبات میں سوال جواب کے دوران جو شخص موجود ہوتا ہے، وہ صرف زندہ وجود ہوتا ہے۔ لکھنے والا وہاں نہیں ہوتا۔ جب لکھنے کا عمل ہی نہیں ہورہا ہوتا تو لکھنے والا وجود وہاں کیسے ہوسکتا ہے۔ جیکل اور ہائیڈ کی طرح دونوں ایک یادداشت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہر تحریر دونوں کے مشترکہ ذہن سے گزرتی ہے لیکن وہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔

لکھنے والا وجود اپنی پوری یادداشت کے ذخیرے تک رسائی رکھتا ہے۔ زندہ وجود تھوڑا بہت اندازہ لگا سکتا ہے کہ لکھنے والا وجود کس چیز میں مصروف رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ اندازہ اتنا ٹھیک نہیں ہوتا جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ جب انسان لکھ رہا ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کا مشاہدہ نہیں کرتا۔ کیونکہ جیسے ہی لکھنے کے دوران اپنا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ منجمد ہوجاتا ہے۔

لکھتے ہوئے انسان ٹھہر کر کافی لینے جاسکتا ہے، فون کال ملاسکتا ہے اور معمول کے مطابق کچھ بھی کرسکتاہے۔ کم از کم میں ایسا کرسکتی ہوں۔ لیکن اس کے باوجود یہ احساس نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی اور ہے جو ہمارے وجود پر قبضہ کررہا ہے۔ بہت سے لکھنے والے یہ بیان کرتے ہیں۔ روانی کی لہر، کہانی کے اثرات، کرداروں کا حاوی ہونا، خواب جیسے خیالات اور روحانی تجربات۔ ایسے تجربات اتنے زیادہ بیان کیے گئے ہیں کہ آپ انھیں نظرانداز نہیں کرسکتے۔

شاید اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ لکھنے والوں کی کم از کم دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو بربط نواز اپالو دیوتا کے پیروکار ہیں۔ جنھیں ساخت اور ہم آہنگی کا شعور ہوتا ہے۔ جن پر الہامی کیفیت طاری ہوتی ہے۔

اور دوسری قسم وہ ہے جو ہرمیس دیوتا کو پکارتے ہیں، چالوں اور پیغاموں کے دیوتا کو، جو راز ظاہر کرتا ہے اور چھپاتا بھی ہے۔ جو سفر کرنے والوں اور چوروں کا سرپرست ہے۔ جو روحوں کو دوسری دنیا تک لے جاتا ہے۔ جب مسودے پر نظرثانی کرنی ہو تو آپ کو اپالو کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب کہانی کے درمیان کہیں پھنس جائیں تو ہرمیس مددگار ہوتا ہے۔

آخر یہ سارا مواد آتا کہاں سے ہے؟ جنھیں ہم عام طور پر زندگی اور وقت کہتے ہیں، بس وہیں سے۔ چیزیں آپ کے ساتھ پیش آتی ہیں یا آپ کو سنائی جاتی ہیں۔ بڑی چیزیں بھی۔ چھوٹی چیزیں بھی۔ بعض باتیں آپ کو متاثر کرتی ہیں۔ کچھ بس کہیں دل و دماغ میں چپک جاتی ہیں۔ کوئی بھی انسان اس زمانے اور اس جگہ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا جس میں وہ جیتا ہے۔ کوئی بھی نہیں۔ آپ جو کچھ لکھتے ہیں، وہ اسی زمانے اور مقام کے اندر سے پیدا ہوتا ہے اور اسی سے جڑا ہوتا ہے۔ چاہے کتاب کسی اور سیارے پر ہو یا کسی اور صدی میں، تب بھی اس تعلق سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam