Ghalat Aur Durust Ki Samajh Hai?
غلط اور درست کی سمجھ ہے؟

ابن انشا نے کہیں کسی بادشاہ، شاید قاچار حکمران کا ذکر کیا ہے کہ اس کا کمسن بیٹا روزانہ سو چڑوں کے سر پیر سے مسل کر مارتا تھا تاکہ دل مضبوط ہو۔ ہم جب پڑھتے ہیں کہ فلاں بادشاہ نے اپنے بھائیوں کو سفاکی سے قتل کروادیا یا شہر میں خون کے دریا بہادیے یا کھوپڑیوں کے مینار بنوائے تو ابتدا میں کچھ بے یقینی سے ہوتی ہے۔ لیکن جو بچہ روزانہ سو پرندوں کے سر پیر سے مسلتا ہو، اس کے شقی القلب ہوجانے میں کیا شک رہ جاتا ہے۔
پاکستان میں مسلمان بچہ ہوش سنبھالتے ہی جانوروں کی قربانی ہوتے دیکھتا ہے۔ بعض گھرانوں میں لڑکوں سے جانور کی گردن پر چھری چلوائی جاتی ہے۔ سب ظالم قاتل نہیں ہوجاتے۔ لیکن نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔ آپ مذہب کے جوش میں اسے قبول کریں یا نہ کریں، ماہرین نفسیات کی تحقیق بتاتی ہے کہ ایسا ہوتا ہے۔ امریکا یورپ کے ریسرچ پیپرز آپ خود گوگل کرسکتے ہیں۔
مسلمانوں میں کتا نجس جانور ہے اس لیے بہت کم لوگ پالتے ہیں۔ مہذب ملکوں میں سو میں سے نوے گھروں میں آپ کو پالتو جانور ملیں گے۔ بچے ان سے محبت کرتے ہیں۔ انھیں تکلیف پہنچنے کا سوچ کر رو پڑتے ہیں۔
جانور کی تکلیف پر پریشان ہونے والے بچے اور جانور کی گردن کٹتے دیکھنے کے شوقین بچے ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ ان کی نفسیاتی کیفیات مختلف ہوجاتی ہیں۔ ان کی سوچ مختلف ہوجاتی ہے۔
جانور یہاں بھی کاٹے جاتے ہیں۔ گوشت بھی کھایا جاتا ہے۔ لیکن وہ سب بچوں کی آنکھوں سے دور ہوتا ہے۔ امریکا میں تھینکس گیونگ پر سب تو نہیں لیکن بہت سے لوگ گھر پر ٹرکی ذبح کرتے ہیں۔ لیکن چھوٹے بچوں کو وہ منظر نہیں دکھایا جاتا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بچوں کا جانوروں کو ذبح ہوتے دیکھنا نقصان دہ ہے اور ان کا حق ہے کہ انھیں ایسے مناظر سے دور رکھا جائے۔
مغرب میں دوسری طرح کا مسئلہ ہے۔ یہاں خونی ویڈیو گیمز سے بچے متاثر ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض انتہائی اقدامات کر بیٹھتے ہیں۔ اسکول میں شوٹنگ جیسے واقعات ہوجاتے ہیں۔ لیکن ادھر لوگوں کو احساس ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا ٹھیک ہے۔ غلط کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کیا ہمارے ہاں غلط اور درست کی سمجھ ہے؟ غلط کو درست کرنے کی خواہش ہے؟