Flying My Way
فائنڈنگ مائی وے

میں نے عصر ملک کو یاد دلایا کہ آپ پچھلی بار واشنگٹن آئے تھے تو شیڈول سخت تھا۔ اس بار پہلے سے درخواست کررہا ہوں۔ ضیا صاحب سے سفارش بھی کروادی۔ عصر نے کہا، فکر نہ کریں۔ اس بار ضرور ملیں گے۔
اس کے بعد اس خوبصورت نوجوان نے مسلسل رابطہ رکھا، پروگرام میں تبدیلی کے باوجود وعدہ پورا کیا اور ملالہ کی نئی کتاب کی تقریب اجرا کا وی آئی پی دعوت نامہ بھیجا۔
ملالہ سے ملاقات ہوئی تو وہاں مہمان ان کے ساتھ تصویریں بنوارہے تھے۔ میں نے اصرار کیا کہ دونوں کے ساتھ تصویر چاہتا ہوں۔ عصر بھی ساتھ آکر کھڑے ہوئے۔ پھر میں نے انھیں کتاب دے کر کہا کہ اس پر بعد میں دستخط کروا دیجیے گا۔ عصر نے ملالہ کی مصروفیت کے باوجود وہ کام بھی کروادیا۔
ملالہ نے اپنی کتاب میں اس دباو کا ذکر کیا ہے جو انھیں کم عمری میں شہرت کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے ملالہ سے کہا کہ دو باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ شہرت کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ لیکن آپ کو بہادری کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اس دباو کو یوں دیکھیں گی تو مثبت احساس ہوگا۔ دوسری بات، آپ کا میاں بہت اچھا بندہ ہے۔ اس پر دونوں خوش ہوئے۔
تقریب کا مقام ایک دن پہلے تبدیل کیا گیا تھا جو فلمور سلور اسپرنگ میں منعقد ہوئی۔ اس کی گنجائش 1100 افراد کی ہے اور دونوں لیول پوری طرح بھرے ہوئے تھے۔ میں نے کئی بار اٹھ کر دیکھا، سفید فام زیادہ تھے۔ لیکن سیاہ فام، ہسپانوی، کورین اور دوسری قوموں کے لوگ بھی تھے۔ پاکستانی چند ایک ہی ہوں گے۔
سی بی ایس کی مقبول اینکر نورا اوڈنل میزبان تھیں اور انھوں نے اچھے سوالات کیے۔ پتا چل رہا تھا کہ انھوں نے کتاب پڑھی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ملالہ کو نوبل انعام ملنے کے بعد بھی انھوں نے انٹرویو کیا تھا۔
ملالہ نے بہت سی دل کی باتیں کیں۔ جو احمق لوگ انھیں مغرب کا ایجنٹ اور اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، وہ محض بغض ہوتا ہے۔ کبھی وہ اس لڑکی کو سنیں۔ وہ کیا سوچتی ہے، وہ کہہ رہی ہے اور کیا کام کررہی ہے۔ ملالہ اپنے مقاصد میں بالکل کلئیر ہیں۔ اگر کسی کے پاس عقل ہو تو اسے سمجھ آجائے گی۔
ملالہ کی نئی کتاب فائنڈنگ مائی وے ہے۔ اس کا ترجمہ ہوگا، اپنا راستہ ڈھونڈنا یا ڈھونڈ نکالنا۔ یہ ان کے ایکٹوزم سے متعلق نہیں بلکہ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہے۔ اس میں انھوں نے خالصتا نجی باتیں بھی بتائی ہیں۔
عام پاکستانی مردوں اور خواتین کے لیے ملالہ کی بات سمجھنا اس لیے دشوار ہوتا ہے کہ تنگ نظر اور بند معاشرے میں انھیں آزادی کا مفہوم ہی سمجھ نہیں آتا۔ ملالہ نے بتایا کہ کم عمری میں ایکٹوزم، طالبان کے حملے، عالمی شہرت اور پھر نوبل انعام ملنے کی وجہ سے وہ سخت دباو کا شکار ہوگئی تھیں۔ انگلینڈ کے ہائی اسکول میں وہ تنہائی محسوس کرتی تھیں۔ اکا دکا سہیلیاں تھیں۔ تازہ تازہ کلچرل شاک بھی تھا۔
تب انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یونیورسٹی میں مختلف طالب علم بنیں گی۔ انھوں نے وہاں بھرپور وقت گزارا اور ہر سرگرمی میں حصہ لیا۔ بہت سی سہیلیاں بنائیں۔ انھیں رازدار بنایا۔ خوب شرارتیں کیں۔ ایک محبت بھی کی۔ انھوں نے صاف گوئی سے بتایا کہ عصر ان کی دوسری محبت ہیں لیکن لو آف دا لائف ہیں۔
انھوں نے مزے مزے کی باتیں بھی کیں۔ ایک سہیلی کا اپنے بوائے فرینڈ سے جھگڑا ہوگیا تو اس نے کہا کہ ہماری درمیان پیس کرواو۔ ملالہ نے کہا، میں کیوں؟ تو اس نے کہا، کیونکہ تم نے امن کا نوبل انعام جیتا ہے۔
سب خوب ہنسے۔ نورا اوڈنل نے موقع سے فائدہ اٹھاکر مہمانوں سے کہا، اگر کسی کو کوئی لفڑا درپیش ہے تو ملالہ سے نصیحت حاصل کریں۔ پھر بڑوں نے کم اور بچوں نے زیادہ سوال کیے۔ اتنے عمدہ سوال کہ ملالہ بھی حیران رہ گئیں۔ ایک بچی نے کہا کہ میں بھی لوزر ہوں۔ ہائی اسکول کا آخری سال ہے۔ یونیورسٹی جاکر کیا کروں کہ دوستیاں ہوسکیں۔ ایک پہلی جماعت کی بچی نے کہا، میری رول ماڈل آپ ہیں، آپ کا رول ماڈل کون ہے۔
ایک خاتون نے موقع سے فائدہ اٹھاکر کہا کہ میں سرکاری ملازم ہوں۔ یہاں شٹ ڈاون ہے اور ہمیں تنخواہ نہیں مل رہی۔ ہم درست اور حکومت غلط ہو تو کیا کرنا چاہیے؟ ملالہ نے بہت ذہانت سے وہ سوال ٹال دیا کیونکہ یہ سیاسی معاملہ تھا۔ انھوں نے ایسے ظاہر کیا کہ جیسے انھیں امریکی سیاست کا علم نہیں اور خاتون کا سوال خواتین کو برابری کی بنیاد پر مراعات ملنے سے ہے۔
ملالہ نے بتایا کہ ان کی افغانستان میں موجود لڑکیوں سے انٹرنیٹ کے ذریعے بات ہوتی ہے۔ وہ گھٹن کا شکار ہیں۔ اسکول نہیں جاسکتیں۔ گھر سے نہیں نکل سکتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بس آن لائن کتابیں پڑھتی ہیں۔ دوسرے ملکوں میں آن لائن کتاب پڑھنا کوئی خاص بات نہیں۔ لیکن افغان لڑکیوں کا آن لائن کتاب پڑھنا بھی مزاحمت کی ایک شکل ہے۔
ملالہ نے نہایت سچائی سے بتایا کہ وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں اور تھراپی کرواتی ہیں۔ پاکستان میں اسٹگما ہے اور لوگ نہ بات کرتے ہیں، نہ علاج کرواتے ہیں۔ ملالہ کو بھی تھراپی کا فیصلہ کرنے میں سات سال لگے۔ لیکن کرنا پڑا کیونکہ طالبان کے حملے کی یاد پلٹ پلٹ کر آتی تھیں۔ وہ سو نہیں پاتی تھیں۔ پینک اٹیکس ہوتے تھے۔ لگتا کہ کہ دم نکل جائے گا۔ تھراپی شروع ہونے کے بعد ان کی طبعیت سنبھل گئی۔
ایک سوال پر ملالہ نے بتایا کہ انھیں ہر بات پر جج کیا جاتا ہے، ان کے لباس یا کسی بھی بات پر طوفان کھڑا کردیا جاتا ہے۔ انھوں نے آکسفرڈ میں جینز پہننے کا فیصلہ کیا تاکہ طلبہ میں نمایاں نظر نہ آئیں۔ لیکن اسکارف بھی لیا۔ اس پر دونوں طرف سے تنقید ہوئی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ جینز کیوں پہنی۔ کچھ لوگوں نے کہا، اسکارف کیوں نہیں اتارا۔ انھوں نے مضبوط لہجے میں کہا کہ لڑکیاں کیا پہنیں، یہ ان کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ کسی کو حق نہیں کہ انھیں بتائے۔ وہ جو جی چاہے پہنیں، جو جی چاہے کھائیں پئیں، جو جی چاہے اپنی زندگی میں کریں۔
انھوں نے ایک مثال دی کہ ایک دن کسی بات پر اداس بیٹھی تھیں۔ ان کے والد نے کہا کہ آپ اداس نہ ہوا کریں کیونکہ پھر ہم سب اداس ہوجاتے ہیں۔ ملالہ نے اس بات پر دباو محسوس کیا کہ انھیں اہلخانہ کی خاطر مصنوعی خوشی دکھانا پڑے گی۔ لیکن پھر انھوں نے والد سے بات کی۔ ان سے کہا کہ میں اداس ہوں تو مجھے اپنے احساسات کے ساتھ جینے دیں۔ اپنی زندگی جینے کے لیے یہ ضروری ہے۔
بس یہی ملالہ کا پیغام ہے۔ یہی ان کی نئی کتاب کا موضوع ہے۔ ہر لڑکی کو اپنی راہ خود تلاش کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے اپنے آپ سے محبت کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ماں باپ، شوہر، دوسرے لوگوں کا نمبر آتا ہے۔ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینی چاہیے، دوسروں کی توقعات پر نہیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنی کتاب میں بہت سی ذاتی باتیں لکھ دی ہیں تاکہ دوسری لڑکیوں کو حوصلہ ملے۔

