Dawn Aur Zarrar Khuhro
ڈان اور ضرار کھوڑو

ڈان کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ ایک سنجیدہ اخبار ہے اور اس کے کالم نگار سمجھ دار لوگ ہیں۔ اردو اخبارات نسبتا زیادہ پڑھے جاتے ہیں اس لیے ان کے کالم نگاروں کو اکثر سیلف سنسرشپ سے کام لینا پڑتا ہے۔ لیکن انگریزی کالم نگار مناسب الفاظ میں درست بات کرسکتے ہیں۔ کچھ اس لیے بھی کہ ان کی تحریریں بیرون ملک پڑھی جاتی ہیں۔
لیکن شاید ڈان بدل چکا ہے اور اس کے کالم نگار بھی عوامی بھیڑ چال کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ضرار کھوڑو پرانے صحافی ہیں اور ڈان ٹی وی پر پروگرام نے انھیں شہرت بخشی ہے۔ لیکن ان کے ٹوئیٹ دیکھ کر اور بعض اوقات کالم پڑھ کر بھی افسوس ہوتا ہے۔ سندھی دانشوروں کے بارے میں میری رائے بہت اچھی ہے۔ میں امر جلیل، جاوید بھٹو مرحوم اور حسن مجتبی کا پرستار ہوں۔ ان سندھیوں میں ضرار کھوڑو جیسے کا نکل آنا تعجب کا باعث ہے۔
کھوڑو صاحب کا کل کا کالم اسرائیل کے بارے میں تھا اور اسے سستی جذباتیت اور جھوٹی مسلمانیت کا شاہکار سمجھنا چاہیے۔ الباکستانی مسلمان امریکیوں، یہودیوں اور مسیحیوں سے بغض رکھتے ہیں، وہ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن ڈان کا کالم نگار اس لہر میں بہتا ہے، یہ دکھ والی بات ہے۔
اس تاریخی کالم کا آغاز اس خبر سے ہوا ہے کہ یوم یروشلم پر یہودیوں نے جلوس نکالا، مسجد اقصی پر دھاوا بولا اور عرب مردہ باد کے نعرے لگائے۔ اول تو مسجد پر دھاوا بولنے کی خبر غلط ہے۔ دوسرے، پاکستان میں آئے دن لبیک، سپاہ صحابہ اور دوسری شدت پسند تنظیموں کے غنڈے مظاہرے کرتے ہیں اور دنیا بھر کو مردہ باد کہتے ہیں۔ اسرائیل میں بھی اگر کسی شدت پسند تنظیم نے عرب مردہ باد کے نعرے لگادیے تو وہ اس قابل نہیں تھے کہ ڈان کے کالم نگار کو کان لگاکر سننے پڑے۔ اسرائیل میں لاکھوں عرب رہتے ہیں اور اس کی پارلیمان کے رکن بھی ہیں۔ وہ ان نعروں کا جواب دینا جانتے ہیں اور دیتے بھی ہیں۔
دوسرا شکوہ کھوڑو صاحب کو یہ ہے کہ یہودی ہیکل سلیمانی بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یروشلم میں قبل مسیح ہیکل سلیمانی موجود تھا اور اسے دو بار بابلیوں اور رومنوں نے تباہ کیا۔ تو پھر یہودی کیا کریں؟ اپنی سب سے اہم عبادت گاہ کی تعمیر کا ارادہ ترک کردیں؟
جناب کو یہودیوں بلکہ مسیحیوں کے بھی مسیحا کی واپسی کے عقیدے پر اعتراض ہے۔ اتفاق سے مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ مسیحا واپس آئیں گے۔ بلکہ مزید یہ کہ امام مہدی بھی آئیں گے اور کھوڑو صاحب ہی کے الفاظ میں، آگ اور تلوار سے کام لے کر پوری دنیا کو تبدیل کردیں گے۔ یعنی یہودیوں کا یا مسیحیوں کا ایسا عقیدہ ہو تو قابل اعتراض ہے اور مسلمانوں کا وہی عقیدہ ہو تو مناسب اور درست ہے۔
سچائی یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت اور یہودیوں کی اکثریت ہیکل کی تعمیر نہیں چاہتی۔ ان کے بیشتر مذہبی رہنما مسیحا کی آمد سے قبل اس کام کے خلاف ہیں۔ صرف ایک فرقے کے کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں لیکن انھیں زیادہ حمایت حاصل نہیں۔
کھوڑو صاحب کو یہ پریشانی بھی ہے کہ اسرائیلی حکومت مسجد اقصی کے نیچے سرنگ کھود کر اس کی بنیادیں کمزور کرنا اور اسے گرانا چاہتی ہے۔ یہ لاعلمی نہیں ہے بلکہ تعصب پر مبنی بیانیہ ہے۔ آپ یروشلم جائیں گے تو دیکھیں گے کہ مسجد اقصی کے دروازے کے ساتھ ہی زیر زمین جانے والی سیڑھیاں ہیں۔ یعنی تہہ خانہ تو وہاں پہلے سے ہے۔ اس کا کمپاونڈ کے باہر دیوار گریہ کے ساتھ والی سرنگ سے کوئی تعلق نہیں۔
دراصل دیوار گریہ جس قدر زمین کے اوپر ہے، اس سے زیادہ زمین کے نیچے ہے۔ یہ شہر ہزاروں سال سے آباد ہے اور منزل بہ منزل تعمیر ہوتا رہا ہے۔ پرانے شہر میں کہیں بھی کھدائی کرلیں، قیمتی آثار برآمد ہوجاتے ہیں۔ عشروں سے محکمہ آثار قدیمہ اپنا کام کررہا ہے۔ کمپاونڈ کے اطراف چار محلے ہیں جن میں ایک مسیحیوں کا، ایک آرمینیوں کا، ایک یہودیوں کا اور ایک مسلمانوں کا ہے۔ کسی کو زیر زمین کھدائی یا آثار کی تلاش سے کوئی مسئلہ نہیں، سوائے مسلمانوں کے۔ وہ ہر افواہ پر ڈنڈے پتھر لے کر نکلتے ہیں اور ہنگامہ کرتے ہیں۔ ماضی میں کئی بار ہنگاموں میں درجنوں افراد مارے جاچکے ہیں۔
اگر اسرائیلی حکومت چاہے تو اسے اقصی کمپاونڈ پر قبضے اور ہیکل کی تعمیر سے کون روک سکتا ہے۔ لیکن 1967ء سے اس کمپاونڈ کا مکمل قبضہ اور اختیار مسلمانوں کے پاس ہے۔ میں خود جاکر سارا انتظام دیکھ چکا ہوں۔ سخت گیر یہودی اگر کبھی کمپاونڈ میں داخل بھی ہوتے ہیں تو ان کا رخ ڈوم آف دا روک کی طرف ہوتا ہے۔ مسجد کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں۔
فاضل کالم نگار نے طنزیہ پیرائے میں یہ بھی لکھا کہ تقریباً ہر امریکی سیاستدان کو دیوار گریہ جانا پڑتا ہے اور اسرائیل کے جھنڈے کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا پڑتا ہے کیونکہ اسی طرح طاقتور اسرائیلی لابیز کے فنڈز اور حمایت کے دروازے ان کے لیے کھلتے ہیں۔ الباکستانی اکثر عام گفتگو میں بھی یہ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ انھیں علم نہیں کہ یہودی پوری دنیا میں کنجوس مشہور ہیں۔ ان کی کنجوسی کے ہزاروں لطیفے بنے ہوئے ہیں۔ پتا نہیں کون لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہودی فیاضی سے اندھادھند فنڈ بانٹتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کی تاریخ پڑھیں، آپ کو پتا چلے گا کہ یہ ایک غریب ملک تھا جس کے لوگوں نے سخت محنت کے بعد اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرکے اسے اپنے پیروں پر کھڑا کیا ہے۔ جو ملک خود امریکا سے امداد لیتا ہو، وہ امریکی سیاست دانوں کی کیا فنڈنگ کرے گا۔
جہاں تک امریکی سیاست دانوں کی انتخابی فنڈنگ کا معاملہ ہے، وہ یہاں رہنے والے مسلمان بھی کرتے ہیں بلکہ پاکستانیوں کی تنظیمیں بہت پیسہ خرچ کرنے لگی ہیں۔ اس کا تعلق بین الاقوامی مسائل سے نہیں، مقامی سیاست سے ہوتا ہے۔
میں ڈان کے مالکان کو مشورہ دوں گا کہ ضرار کھوڑو کو یروشلم کا دورہ کروائیں۔ ٹکٹ اور قیام کا بندوبست میں کروادوں گا۔ وہ جاکر سرنگوں کی کھدائی، مسجد کی بنیادیں، یہودیوں کے عزائم، ان کے عقائد اور فلسطینیوں کی حرکتوں کا خود مشاہدہ کریں۔ پھر بے شک جذباتی کالم لکھیں لیکن کم از کم حقائق درست کرلیں۔