Data Centers
ڈیٹا سینٹرز

چار سال پہلے بیروزگار ہونے کے بعد جب میں نئی ملازمت کے لیے ہاتھ پاوں مار رہا تھا اور ایک کے بعد ایک کورس کرتا چلا جارہا تھا، تب ایک سرٹیفکیشن اے ڈبلیو ایس کلاوڈ کی بھی کی تھی۔ اے ڈبلیو ایس ایمیزون ویب سروسز کا مخفف ہے۔ اس وقت چیٹ جی پی ٹی کا ظہور نہیں ہوا تھا لیکن اس کورس سے مجھے مستقبل کا بہت اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا۔
اگر آپ اس بارے میں زیادہ نہیں جانتے تو یوں سمجھ لیں کہ ایک وہ ڈسک ہوتی ہے جو آپ کے کمپیوٹر میں ڈیٹا محفوظ کرتی ہے۔ ایک یو ایس بی یا ایکسٹرنل ڈسک ہوتی ہے اور آپ اس میں ڈیٹا محفوظ کرلیتے ہیں۔ تیسرا طریقہ کلاوڈ پر ڈیٹا محفوظ کرنے کا ہے۔ یعنی گوگل ڈرائیو یا ایسی ہی کسی سروس پر اپنا ڈیٹا محفوظ کرلیا جائے۔
بڑی سروسز چند جی بی تک ڈیٹا مفت میں محفوظ کرلیتی ہیں لیکن حجم زیادہ ہوجائے تو کچھ فیس مانگتی ہیں۔ اگر آپ کی ویب سائٹ ہے اور زیادہ ڈیٹا ادھر ادھر کرنا پڑتا ہے تو مستقل سروس لینی پڑے گی۔ پہلے یہ کام ہر شہر میں مقامی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈز یا آئی ایس پیز کرتی تھیں۔ لیکن اب ایمیزون، گوگل اور مائیکروسافٹ کی کلاوڈ سروسز یہ خدمات انجام دیتی ہیں۔
یہ کلاوڈ آسمان پر نہیں ہوتا۔ ایلون مسک کے سیٹلائٹس سے ان کا کچھ تعلق نہیں۔ یہ کلاوڈ سروسز دراصل ڈیٹا سینٹرز پر چلتے ہیں۔ یہ ڈیٹا سینٹرز کیا ہوتے ہیں؟ ڈیٹا سینٹر ایسی عمارتیں ہوتی ہیں جہاں ہزاروں طاقتور کمپیوٹر نصب ہوتے ہیں۔ وہ بہت زیادہ ڈیٹا محفوظ یا پروسیس کرسکتے ہیں۔ ان کمپیوٹرز کو ریکس میں رکھا جاتا ہے اور پانی سے ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کانوں میں ائیرپلگ لگانے کے باوجود درد ہونے لگتا ہے۔
کلاوڈ سروسز اپنے کلائنٹس کی ضرورت کا جائزہ لے کر انھیں مختلف پیشکشیں کرتی ہیں۔ اگر آپ کا برانڈ چھوٹا ہے تو صرف ایک ڈیٹا سینٹر میں ڈیٹا رکھ سکتے ہیں اور سستا پڑے گا۔ لیکن اس میں مسائل پیش آسکتے ہیں۔ برانڈ بڑا ہے تو دو یا زیادہ ڈیٹا سینٹرز میں ڈیٹا محفوظ کرنا پڑے گا۔ کسی ایک ڈیٹا سینٹر پر بجلی فیل ہوجائے یا کوئی اور مسئلہ ہوجائے تو دوسرے ڈیٹا سینٹر کی بدولت ویب سائٹ یا ڈیٹا تک رسائی برقرار رہتی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کے 2022 میں آغاز کے بعد ڈیٹا سینٹرز کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اے آئی کے ڈیٹا سینٹرز مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے کمپیوٹرز میں غیر معمولی حد تک تیز چپس لگی ہوتی ہیں۔ عام ڈیٹا سینٹر بھی بہت بجلی کھاتا ہے لیکن اے آئی ڈیٹا سینٹر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ امریکی جریدے نیویارکرکے مطابق ایک ڈیٹا سینٹر فلاڈیلفیا جیسے بڑے شہر جتنی بجلی صرف کرتا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ فلاڈیلفیا 2 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتا ہے۔
ڈیٹا سینٹرز پانی اور زمین جیسے وسائل پر بھی دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان میں پانی گرم ہوکر نکلتا ہے جسے دوبارہ ٹھنڈا کرکے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے علاقوں میں زمین کی زرخیزی ختم ہو رہی ہے اور مقامی کسان اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ڈیٹا سینٹرز آلودگی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ ایلون مسک کی کمپنی ایکس اے آئی نے ایک گیس سے چلنے والا مرکز باکس ٹاون میں بنایا، جس سے دمے کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
اتفاق یہ ہے کہ شمالی ورجینیا، جہاں ہم رہتے ہیں، ڈیٹا سینٹرز کا مرکز ہے۔ دنیا بھر کا ڈیٹا یہاں محفوظ کیا جاتا ہے۔ بہت سی کمپیوٹر کمپنیاں اور ان کے ملازم یہاں ہیں۔ ان کی تنخواہیں عام امریکیوں سے بہت بہتر ہیں۔ اسی لیے یہاں کی لاوڈن کاونٹی امریکا کی امیر ترین کاونٹی بن گئی ہے۔
اے آئی کے شعبے میں بہت تیزی سے ترقی ہورہی ہے لیکن یہ ترقی پانی اور بجلی کی محتاج ہے۔ اگر ضرورت کے مطابق نئے بجلی گھر نہ بن سکے اور پانی فراہم نہ کیا جاسکا تو اے آئی کی ترقی کی رفتار سست ہوجائے گی۔ دوسری جانب اگر اے آئی کے لیے بجلی اور پانی فراہم ہوگیا تو ماحولیات کو نقصان پہنچے گا۔ یہ صرف امریکا نہیں، چین اور اے آئی کی دوڑ میں شامل تمام ملکوں کا مسئلہ ہے۔

