Brothers Karamazov Ki Roshni
بردرز کراموزف کی روشنی

اس ہفتے نیویارکرنے ناروے کے ممتاز ادیب کارل کناوس گارڈ کا مضمون "بردرز کراموزف کی روشنی" ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔
فیودور دوستوئیوسکی کا یہ ناول ایک ادبی جریدے میں دو سال تک قسط وار چھپتا رہا۔ جم کر لکھنے کے بجائے قسط وار ناول لکھنا مشکل کام ہے۔ یہ ڈائجسٹ کی طویل کہانی نہیں جسے ادبی نقاد اہمیت نہیں دیتے۔ اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ یہ دنیا کے بہترین ناولوں میں شامل ہے۔ بلکہ بعض نقاد اسے عظیم ترین ناول بھی قرار دیتے ہیں۔
لیکن ہر قاری نہیں جانتا کہ دوستوئیوسکی نے یہ ناول کن حالات میں لکھا۔ اسے شروع کرنے کے بعد اس کا تین سالہ بیٹے الیئوشا مرگی کا طویل دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا تھا۔ اسے یہ مرض دوستوئیوسکی ہی سے ملا تھا جس پر ساری زندگی مرگی کے دورے پڑتے رہے۔
بعد میں اس کی بیوی اینا نے اپنی یادداشتوں کی دو کتابیں لکھیں۔ ان میں اینا نے بتایا کہ دوستوئیوسکی کا کیا حال تھا اور اس نے بیٹے کی موت کو کیسے برداشت کیا۔ اینا نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اوپٹینا پستن خانقاہ جائے تاکہ اسے کچھ سکون نصیب ہو۔ وہ اپنے نوجوان دوست ولادی میر سولوویوف کے ساتھ وہاں گیا جہاں اسے خانقاہ کے بزرگ ایمبروز نے مشورہ دیا کہ وہ ضبط نہ کرے بلکہ کھل کر روئے۔
ٹالسٹائی اور ترگنیف کے برعکس دوستوئیوسکی ایک غریب ادیب تھا۔ اس کا گزر بسر لکھنے پر تھا۔ چنانچہ اس جذباتی عرصے اور سخت دباو کے باوجود اسے ہر ماہ ناول کی قسط لکھنا پڑی اور اس کی ڈیڈلائن کا خیال رکھنا پڑا۔
ادیب وہی لکھتا ہے جو اس پر گزرتی ہے۔ دوستوئیوسکی پر جو گزر رہی تھی، اسے اس نے ناول میں شامل کردیا۔ ایک کردار کا نام بیٹے کے نام پر رکھا اور اس میں وہ خوبیاں رکھیں جو سولوویوف میں تھیں۔
کناوس گارڈ نے اپنے مضمون میں لکھا:
"کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ بردرز کرامازوف ایک نکھرا ہوا یا خوبصورتی سے لکھا گیا ناول ہے۔ یہ دوستوئیوسکی کے اندازِ تحریر کی خاصیت ہے کہ ہر چیز میں اضطراب ہوتا ہے۔ جیسے الفاظ پھٹ پڑتے ہوں۔ جزئیات کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی۔ یہ انداز بے باک اور شدید ہے۔ جیسے ہم براہ راست اصل معاملے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور وقت کی کمی ہے۔ یہ اضطراری کیفیت، یہ اندازِ تحریر اور بظاہر بے ترتیبی آخری ابواب میں واقعات کے اچانک موڑ اور تبدیلیوں میں جھلکتی ہے۔ یہ قاری کو اگلی قسط تک معلق رکھتی ہے۔ یہ سب ایک اور چیز کے خلاف جاتا ہے، ایک بھاری اور سست روی سے آنے والا سوال، جو بار بار اٹھتا ہے اور ہر واقعے سے جڑا ہوا ہے: ہم کس لیے جی رہے ہیں؟"
ہم جانتے ہیں کہ بردرز کراموزوف دوستوئیوسکی کا آخری ناول ثابت ہوا۔ اسے نمٹانے کے بعد وہ بمشکل دو ڈھائی ماہ زندہ رہ سکا۔

