Behtar Nizam Muashre Ko Behtar Banata Hai
بہتر نظام معاشرے کو بہتر بناتا ہے

یہاں میں امریکا کے جس اسکول ڈسٹرکٹ میں پڑھاتا ہوں، اس میں ہر سال دو بار بچوں کو ایک سوالنامہ دیا جاتا ہے۔ بظاہر عام سے سوالات ہوتے ہیں۔ لیکن ان سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کون سے بچے ذہنی اور نفسیاتی دباو کا شکار ہیں۔ ان کے رجحانات کیا ہیں۔ کیا مسائل مستقبل میں پیش آسکتے ہیں۔
میں ایسے بچوں کو انگریزی پڑھاتا ہوں جن کی یہ مادری زبان نہیں ہے۔ وہ امیگرنٹ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بیشتر کے ماں باپ غریب ہوتے ہیں۔ یہاں غریب نہیں کہا جاتا، ڈس ایڈوانٹیجڈ کہتے ہیں۔ وہ اسٹرگلنگ فیز میں ہوتے ہیں۔ ٹیچرز کو بتایا جاتا ہے کہ ایسے بچوں کے گھر میں مسائل ہوتے ہیں اس لیے ان سے کیسے پیش آنا چاہیے۔ اگر وہ پڑھ نہیں رہے، ڈیسک پر سر رکھ کر سوجاتے ہیں، بدتمیزی کرتے ہیں، ٹیسٹ میں فیل ہو جاتے ہیں تو سخت رویہ نہیں رکھنا چاہیے۔ ممکن ہے انھیں پیٹ بھر کھانے کو نہ مل رہا ہو۔ ممکن ہے کہ گھر میں تلخیاں ہوں۔ ممکن ہے، سنگل پیرنٹ دیکھ بھال کرتا ہو۔ ممکن ہے، اسکول سے باہر تشدد کا شکار ہوں۔ ان کے ذہن منتشر ہوں گے۔ پریشان ہوں گے۔ وہ تعلیم پر ویسی توجہ نہیں دے سکتے، جیسے پریولیجڈ خاندانوں کے بچے دیتے ہیں۔
عمومی طور پر اسکولوں میں اچھا ماحول ہوتا ہے۔ اگر بچوں کے مسائل کا اندازہ ہوجائے تو ٹیچر اور اسکول ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں پہلے جس اسکول میں تھا، وہاں ہر ماہ غریب خاندانوں کو راشن فراہم کیا جاتا تھا۔ یہ کام اسکول کے پرائیویٹ اسپانسر کرتے تھے۔ اسکول میں کلینک بھی ہوتا ہے۔ بچوں کے نفسیاتی مسائل حل کرنے کے لیے سائیکیٹرسٹ بھی آجاتا ہے۔
امریکا میں بھی جرائم ہوتے ہیں۔ اسکول شوٹنگز ہوجاتی ہیں۔ لیکن بہتر اسکولنگ کی وجہ سے بہت سے جرائم رک بھی جاتے ہیں۔ جو جرم نہیں ہوتا، اس کی خبر نہیں لگتی۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بہتر نظام، مسلسل تحقیق کرنے والا، سیکھنے والا نظام کیسے معاشرے کو بہتر بناتا ہے۔
ایک بات بار بار کی جاتی ہے کہ جب آپ کو جان کا خطرہ لاحق ہو تو ذہن سب کام چھوڑ کر صرف بقا پر توجہ دیتا ہے۔ فرض کریں کہ گولیاں چل رہی ہوں اور آپ الجبرا پڑھانے کی کوشش کریں تو بچہ نہیں پڑھ سکتا۔ اسے پرسکون کرنے کے بعد ہی آپ تعلیم دے سکیں گے۔ مجھے یہ بات ریلیٹ ایبل لگی۔ میرے اسکول کالج کے زمانے میں سچ مچ کراچی میں گولیاں چلتی تھیں۔ پھر دھماکے شروع ہوئے۔ پھر شیعہ کلنگ کا سلسلہ چلا۔ صحافت ویسے ہی خطرناک پیشہ ہے۔ پوری زندگی اسی کیفیت میں گزر گئی۔ اب سکون میسر آیا ہے لیکن ذہن اتنے طویل عرصے تک الرٹ رہا ہے کہ اسے اطمینان دلانا مشکل ہے۔
یہاں بچوں کو پرسکون ماحول دیا جاتا ہے۔ انھیں ذہنی دباو سے نکالا جاتا ہے۔ ان کی نفسیات جان کر مدد کی جاتی ہے۔ ان میں انسانیت جگائی جاتی ہے۔ انھیں دردمند بنایا جاتا ہے۔
مدعا یہ ہے کہ اگر ہمارا تعلیمی نظام اچھا ہوتا، اسکولوں کالجوں کا معیار بلند ہوتا، بچوں کی نفسیاتی کیفیت اور رجحانات جاننے کا کوئی طریقہ ہوتا، ان کے سامنے خوشی تلاش کرنے کے متعدد آپشن ہوتے، تو بہت سے مسائل، بہت سے جرائم نہ ہوتے۔ شدت پسندی یقیناََ کم ہوتی۔ ثنا یوسف جیسی بچیاں زندہ رہتیں۔