Moscow, Amritsar, Delhi, Lahore
ماسکو، امرتسر، دہلی، لاہور
پاکستان میں رہنے والوں کو بتا دوں کہ روسی شہریت رکھنے والوں کے لیے ہندوستان کا ویزا لینے کی شرط نہیں ہے۔ بس ہوٹل بکنگ ہو تو ایرپورٹ پر انٹری مل جاتی ہے۔ البتہ ماسکو میں ہندوستان کے سفارت خانے کی ویب سائٹ پر اس میں ویسے ہی ایک اختلاف درج ہے جیسے پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کے علاوہ لکھا ہے مگر کچھ اور طرح سے کہ روسی شہریت کے حامل شخص کو ویزا درکار نہیں ماسوائے پاکستان میں پیدا ہونے والے روسی شہری کے۔ ایک بات اور واضح کر دوں کہ کسی بھی ایسے دوسرے ملک کا شہری جس کی روس کے ساتھ دوہری شہریت کا معاہدہ نہیں ہے جب روس کی شہریت لیتا ہے تو اسے اس ملک کی شہریت چھوڑ دینا پڑتی ہے، جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔
مجھے دہلی بلکہ ہندوستان دیکھنے کا شوق ہے خاص طور پر کیتھل اور دہنولہ نام کے قصبات دیکھنے کا جہاں سے میرے ماں باپ کا تعلق تھا۔ کیتھل ہریانے میں آتا ہے اور دہنولہ نابھہ پنجاب میں مگر اس ویزا غیر ویزا جھنجھٹ میں پڑنے کے سبب میں دنیا کے بیسیوں ملک گھوم لینے کے باوجود ہندوستان نہیں جا پایا ہوں۔ میری ہی طرح ماسکو میں چھوٹے بھائی جیسا میرا دوست کشمیر سنگھ لاہور دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ وہ مجھے کہتا رہتا ہے کہ یار ویزا اپلائی تو کر دو، اگر ریکمنڈیشن درکار ہوگی تو میں کر دوں گا۔ وہ روس میں ہندوستانی شہریوں کی 65 برس سے قائم تنظیم "ہندوستانی سماج" کا صدر ہے۔ اسی طرح میں اسے کہتا رہتا ہوں کہ یار تم ویزا اپلائی تو کرو، پاکستانی سفارت خانے کو قائل کر لیں گے۔ مگر ہم دونوں اپلائی نہیں کرتے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ کلیرنس تو دونوں ملکوں کی ایجنسیوں اور وزارت ہائے داخلہ ہی سے آنی ہے۔ علاوہ ازیں ہم دونوں کی سستی بھی شامل ہے۔
مگر پچھلے دنوں جب کرتار پور کا راستہ کھولنے کا چرچا تھا تو میں نے کشمیر سنگھ کو واٹس ایپ پہ کچھ بھیجا جس کا اس نے حسب معمول طنزیہ جواب دیا تو میں نے فون ملا لیا اور اس سے کہا کہ یار وہ کرتار پور لانگھہ بن رہا ہے، تم لاہور چکر لگا آنا۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں اس وقت لاہور کے بالکل نزدیک امرتسر میں بیٹھا ہوا ہوں مگر کرتار پور کے راستے لاہور جانے کی اجازت نہیں ہے۔ حد ہوگئی بھائی، آپ پاکستان کے اندر آ گئے مگر آپ گھومنے پھرنے میں آزاد نہیں ہیں۔
میں نے اس قسم کی پابندی پہلی بار کمیونسٹ سوویت یونین میں دیکھی تھی کہ جب ویزا لیا جاتا جو عموماََ سبز رنگ کے دو چھوٹے چھوٹے ورقوں پر مشتمل ہوتا تھا تو اس پر درخواست میں بیان کردہ شہر لکھے ہوتے تھے جیسے ماسکو، لینن گراد اور نیژنی نووگورد۔ ظاہر ہے جب کمیونزم سخت تھا تب ان شہروں کے علاوہ آپ کہیں پھٹک نہیں سکتے ہونگے مگر میں چونکہ کمیوزم کے کمزور ہوتے دور میں پہنچا تھا اس لیے قانون کے برخلاف سوچی وغیرہ بھی چلا گیا تھا۔ اس میں دوست نتاشا کی مدد شامل تھی جو ریل گاڑی کے ڈبے کے محافظ سے بات کر لیتی تھی کیونکہ ٹکٹ کسی اور کے نام پر لیا جاتا۔ یہاں اب تک اندرون ملک ریل گاڑیوں کے ٹکٹ اندرون ملک پاسپورٹ یعنی آئی ڈی کارڈ کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔
اگر آپ نے مہربانی کرنی ہی تھی تو پوری کرتے کہ ویزا کی جگہ انٹری کر دیتے تاکہ لوگ اگر چاہتے تو اپنی پسند کے شہر جیسے لاہور، گوجرانوالہ، لائلپور وغیرہ دیکھ آتے مگر ان دونوں ملکوں کی بکریوں نے اول تو دودھ دینا ہی نہیں ہوتا لیکن اگر دیتی بھی ہیں تو مینگنیاں ضرور ڈال دیتی ہیں۔ شاید ایسا سعودی عرب کی طرز پر کیا گیا ہے کہ حج کرنے جانے والے مکہ مدینہ یا زیادہ سے زیادہ جدہ، جہاں مکہ سے منسلک ہوائی اڈہ ہے، کے علاوہ کسی اور شہر نہیں جا سکتے۔ اگر چلے جائیں تو کیا ہوگا اس بارے میں مجھے معلوم نہیں مگر سعودی عرب کی منطق کا اطلاق ہندوستان پاکستان کے شہریوں پر کیا جانا اس لیے ظلم ہے کہ جب تک ہماری نسل جو اپنے ماں باپ سے براہ راست ان کے آبائی شہروں کے قصے سن چکی ہے تمام نہیں ہو جاتی تب تک دونوں ملکوں میں میری طرح کے لاکھوں لوگوں کی ان شہروں کو دیکھنے کی آرزو یا حسرت باقی رہے گی البتہ اس نسل کے بعد اگر دیکھنے کی خواہش ہوگی تو کشمیر سنگھ کی طرح جس کے آباء امرتسر سے ہی ہیں مگر اس نے لاہور کا ذکر سنا ہوا ہے کہ شہر بے مثال ہے یا تھا۔
فرانس اور جرمنی کی مثال دیے جانا ایک اچھی بات ہے مگر اس کا اطلاق بھی پاکستان اور شمالی ہندوستان پر نہیں ہوتا کہ ان دونوں خطوں کی ثقافت اور زبانیں فرانس اور جرمنی کی مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے برعکس بہت حد تک مماثل ہیں۔ آپ پاکستانیوں کے اجتماع میں چلے جائیں یا ہندوستانیوں کے اجتماع میں، نفسیات، انداز، رویے تقریباََ ایک سے لگیں گے اگر کوئی مغائرت ہوگی تو وہ پیدا کردہ ہوگی یعنی سیاسی مغائرت۔
دوسرے ملکوں میں پاکستانی اور ہندوستانی بہت شیر و شکر ہوتے ہیں۔ مل جل کر کاروبار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اپنی اپنی تقریبات میں مدعو کرتے ہیں۔ نہ ہمارے لیے انیل، کشمیر کہنا دشوار ہوتا ہے اور نہ ان کے لیے انور اور اکبر کہنا مشکل۔ باہمی تجارت کو فروغ دیے جانے سے سیاسی مغائرت کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ دونوں ملکوں میں بنیاد پرست حلقے نفاق ڈالنے کی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں مگر مصالحت خواہ لوگ ہمیشہ ہی زیادہ ہوا کرتے ہیں۔ صرف بات معاملات آگے بڑھانے کی ہوتی ہے اور ہاں اگر کچھ اچھا کیا بھی جائے تو "گگلی" کا گند بھی نہیں ڈالنا چاہیے۔ کاش میں اور کشمیر سنگھ اپنی زندگیوں میں ہی لاہور اور دہلی مل کر ایسے گھوم سکیں جیسے وہ ہم دونوں کے مشترکہ ورثہ ہوں۔