Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Chokri Ki Kari Terhi

Chokri Ki Kari Terhi

چوکڑی کی کڑی ٹیڑھی

نذیر لغاری سے شناسائی 1986 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس میں ہوئی تھی جو ڈھل کر دوستی بن گئی۔ جب تک لغاری شام کے روزنامہ عوام میں رہا، میرے کراچی پہنچنے پر اپنی بیشتر سرگرمیاں ترک کرکے مجھے رفاقت فراہم کرتا۔ اپنی سوزوکی میں مجھے لوگوں سے ملانے کو لے جاتا یا وہاں لے جاتا جہاں میں کہتا۔

نذیر کے توسط سے ہی اخلاق احمد سے جو تب اخبار جہاں کے مدیر تھے اور کراچی میں پیدا ہونے والی سرائیکی شخصیت پایہ کے صحافی، ناول نگار اور شاعر انور سن رائے سے شناسائی ہوئے جو گہرے تعلقات میں ڈھل گئی۔

نذیر "بول " میں چلا گیا، بہت مصروف بھی ہوگیا، خوش حال بھی، اخلاق ایک ادارے کے تخلیقی منتظم ہو گئے، انورسن بی بی سی لندن سے لوٹ کر گھر پر لکھنے پڑھنے لگے۔

اب میں کراچی جاتا تو اخلاق احمد سے رابطہ کرتا جو باقی دونوں اور مجھ کو ملا کر چوکڑی مکمل کر لیتے۔ اخلاق احمد کے ہاں سے آیا کھانا کھاتے، علم و ادب، صحافت پر بات چیت کے علاوہ خوش گپیاں کرتے۔

ابھی میں۔ ماسکو میں ہی تھا کہ معلوم ہوا، اخلاق احمد کو سٹروک ہوا ہے۔ پہلی مالی فرصت میں کراچی پہنچا اور اخلاق احمد کی عیادت کو گیا۔ ایک ہاتھ پاؤں ذرا کمزور تھے لیکن رو بہ صحت تھے ماشاءاللہ۔ اس حالت میں بھی وہ بھابی کے ہاتھ کے لذیذ کھانے کھلانا نہ بھولے تھے۔ بعد میں شکر الحمدللہ وہ مکمل صحت یاب ہوئے۔

کچھ عرصہ پہلے اطلاع ہوئی کہ نذیر لغاری کو سٹروک ہوا ہے۔ اس کے رو بہ صحت ہونے کی اطلاع ملتی رہی۔ اس بار میں نے چوتھی کے بعد دوسری بار سترہویں عالمی اردو کانفرنس میں جانے پہ کمر باندھی۔ پہنچتے ہی اخلاق احمد سے رابطہ کرکے نذیر کی عیادت کے لیے چلنے کو کہا۔

وہ کسی جگہ مصروف ہو گئے لیکن ملاقات پہ کہا کہ کل نہیں تو پرسوں ضرور جائیں گے اس کی طرف۔ اسی دوران انورسن سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ نذیر اچھی حالت میں نہیں ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ پوری بات کر رہا ہے لیکن سننے والے کو سمجھ نہیں آتی۔

اس ملاقات سے تھوڑی ہی دیر بعد سرائیکی ادب بارے سیشن تھا۔ میں اپنے ساتھ گئے دوست ڈاکٹر عالم خان کے ساتھ ہال کے انتہائی بائیں جانب دوسری قطار میں بیٹھا تھا کہ عالم خان نے کہا کہ نذیر لغاری صاحب ا گئے۔

دروازے کی جانب دیکھا تو وہ وہیل چیئر پہ تھا۔ کمزور مگر ہشاش بشاش۔ وہیل چیئر اندر لائی گئی اور وہ اپنے بیٹے کا سہارا لے کر ڈگمگاتا ہوا اٹھا پھر اخلاق احمد صاحب کی مدد سے نشست پہ بیٹھ گیا۔

اخلاق صاحب نے میرا بتایا تو اس نے گردن موڑ کر بایاں ہاتھ ماتھے تک لے جاتے ہوئے میری جانب دیکھا تو میں نے اشارہ کیا کہ آتا ہوں۔ اخلاق چلے گئے۔ میں نے جا کے نذیر کو بیٹھے ہوئے گلے لگایا، چوما۔ وہ ملا، مسکرایا مگر چپ رہا۔

میں اس کے ساتھ کی نشست پر بیٹھ گیا۔ وہ چپ رہا۔ لمف جمع ہونے سے سوجے ہوئی انگلیوں والے مفلوج ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے اٹھا کر کبھی ادھر ادھر تو کبھی ادھر رکھتا رہا۔

نذیر کی اہلیہ پینل میں تھیں اور ایک جوان خاتون کمپیرنگ کر رہی تھیں۔ میں نے نذیر سے پوچھا کہ یہ بھابی کی بھتیجی ہے۔ اس نے غوں غوں کرکے جو جواب دیا مجھے سمجھ نہ ایا۔ عالم نے بتایا کہ بھانجی بتا رہے ہیں۔

میں نے اس کی جانب نہ دیکھا کہ کہیں میرے چہرے پر کرب دیکھ کر اسکا جی نہ جلے۔ البتہ بہت دکھی ہوا۔ سیشن کے اختتام پر اسے لے جانے میں مدد دینے کے بعد میں بہت دیر مغموم رہا کہ چوکڑی کی ایک کڑی ٹیڑھی ہوگئی ہے۔

Check Also

Zamano Ki Awaz

By Ali Akbar Natiq