Mohsin Khalid Mohsin Ki Column Nigari Ka Mukhtasar Jaiza
محسن خالد محسن کی کالم نگاری کا مختصر جائزہ
محسن خالد محسن سے میری ملاقات لمز یونی ورسٹی لاہور میں ایک سیمینار کے دوران ہوئی۔ اس سے پہلے میں انھیں ذاتی طور پر نہیں جاتنی تھی البتہ ان کے کالم "ہم سب" پر ضرور پڑھے تھے۔ ملاقات کے وقت ان کے علم لسانیات، تجربے اور لب و لہجہ سے متاثر ہوئی۔ محسن خالد محسنؔ اُردو ادبیات کے اُستاد ہیں، گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج، لاہور میں شعبہ اُردو ادبیات سے وابستہ ہیں۔ ناردن یونی سے پی ایچ ڈی اُردو کی تحصیل کے بعد درس و تدریس کے علاوہ تحقیق و تالیف کے کام مصروف ہیں۔ ان کا پی ایچ ڈی اُردو کا مقالہ "کلاسیکی غزلیات میں تلمیحات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ" ایک معرکہ آراء چیز ہے۔
محسن خالد محسن بطور شاعر اپنی جگہ متعین کر چکے ہیں، ان کا پہلا شعری مجموعہ"کچھ کہنا ہے" 2014ء میں حُسنِ قلم پبلی کیشنز، لاہور سے شائع ہوا تھا، اس مجموعہ میں زیادہ تر غزلیات ہیں اور چند ایک قطعات ہیں۔ اس شعری مجموعہ میں ان کی زندگی کے کچے پکے جذبات کی ترجمانی ملتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ شعری مجموعہ ان کی شاعری کا اولین تعارف ہے جس میں زیادہ تر حُسن و محبت کے حسین جذبات کا بیان ملتا ہے۔
ان کا دوسرا مجموعہ کلام "دُھند میں لپٹی شام" 2016ء میں منظرِ عام پر آیا، اس مجموعہ میں ان کی نثری اور آزاد نظموں کا حصہ غزلیات کی نسبت زیادہ ہے۔ یہ مجموعہ ان کے شاعرانہ قد و قامت کو ماپننے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس مجموعے کو پڑھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ محسن خالد محسن کے ہاں شاعرانہ صناعی کی نسبت شاعرانہ تخیل کاری کا عمدہ نمونہ موجود ہے جسے انھوں نے ذاتی تجربے کی آنچ سے کندن کیا ہے۔ بطور مثال چند شعر ملاحظہ کیجیے:
؎
بظاہر خوش دِکھائی دے رہا ہوں
مگر اندر کی حالت مختلف ہے
؎
زندگی ہوگی اختتا م پذیر
موت انسان کی حقیقت ہے
؎
ہوا کے دوش پہ کوئی دیا جلانے کی
اُداد شہر میں خواہش ہے مسکرانے کی
؎
دردِ دل کی کوئی دوا دے دو
زندہ رہنے کا آسرا دے دو
؎
جب بچھڑنے کا غلط تھا فیصلہ
فیصلہ کیوں آج تک بدلا نہیں
محسن خالد محسنؔ نے شاعری کے علاوہ اختصاریے بھی لکھے ہیں، ان کی تیسری تصنیف "آبِ رواں" ہے جو 2015 میں شائع ہوئی۔ اس نثری شاہکار میں انھوں نے زندگی کے تلخ و شیریں حالات و واقعات سے جو کچھ اخذ کیا، لکھ ڈالا۔ اس تصنیف کو پڑھ کر انداز ہ ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں محسن خالد محسنؔ واصف علی واصف، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، بابا محمد یحییٰ، سرفراز اے شاہ، پروفیسر احمد رفیق اختر وغیرہ ایسے متصوفانہ افکار کے حامل رائٹرز کو پڑھتا رہا ہے۔
ان شخصیات کی سوچ اور فکر کا اثر محسن کے اختصاریوں میں نظر آتا ہے۔ "آبِ رواں" پر تحقیقی کام بھی ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر عظمی نورین اور ڈاکٹر امامہ ریاست نے ایک تحقیقی ریسرچ آرٹیکل لکھا ہے جس کا عنوان "محسن خالد محسن کی اختصار نویسی پر مبنی تصنیف "آبِ رواں" کا تجزیاتی جائزہ"ہے۔ اس آرٹیکل میں مذکورہ تصنیف پر کُھل کر اظہار رائے کیا گیا ہے۔
محسن خالد محسن شاعر، محقق، اُستاد، سماجی کارکن کے علاوہ کالم نگار بھی ہیں۔ مجھے ان کے مذکورہ کام میں جس خوبی نے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی کالم نگاری ہے۔ محسن خالد محسن "ڈیلی کالمز" اور "ہم سب" پر ریگولر بلاگز لکھتے ہیں۔ ان کے بلاگز اور کالمز کے عنوان حیران کُن اور معنی خیز ہوتے ہیں۔
محسن خالد محسن کے کالمز میں پاکستانی معاشرت کی چلتی پھرتی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے کالمز پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص پاکستانی معاشرت کو کس قدر سنجیدگی اور گہرائی سے دیکھتا ہے۔ اس کی نظر میں بلا، کی وسعت موجود ہے، اس کی نگاہ میں معمولی سمجھ کر نظر انداز کیے ہوئے موضوعات کی سنگینی کا تاثر ملتا ہے۔ محسن خالد محسنؔ کے ہاں جن موضوعات کی کالمز میں تسلسل سے تکرار ملتی ہے ان میں پاکستانی معاشرت، سیاست، تہذیب، تمدن، اخلاقی اقدار، خاندانی نزعات، تعلیم و تربیت، اصلاح معاشرہ، دینی احکامات سمیت سیکڑوں ایسے نئے اور ممنوعہ موضوعات ہیں جنھیں پرنٹ میڈیا میں سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔
محسن خالد محسنؔ کے کالمز میں گہرے درد کی فکر مندی کا احساس پایا جاتا ہے۔ ان کے کالمز میں تجربے کی ہڈبیتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے کالمز پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کالمز ایک کہانی ہیں، واقعہ ہے، حادثہ اور سانحہ ہے جو پہلے اس شخص پر بِیتا ہے پھر یہ تحریر میں ڈھل گیا ہے۔ مثال کے طور پر "پاکستان کی دادی مر رہی ہے" کالم ملاحظہ کیجیے۔ اس کالم میں جس طرح نوجوان نسل بزرگوں کی توہین کرتی اور انھیں نظر انداز کرتی ہے، یہ عنصر کلیجہ چھلنی کرتاہے۔
محسن خالد محسن نے ایسے موضوعات پر کُھل کر لکھا ہے جس پر تنہائی میں بات کرتے ہوئے لوگ جھجھک محسوس کرتے ہیں، مثال کے طور پر "میری سہاگ رات کیسی گزری؟ کیا میں نامرد ہوں؟ ، شرم تم کو مگر نہیں آتی، سیکس ایجوکیشن، یوتھ اور پورن انڈسٹری مافیہ کی یلغار، پورن سائٹس اور والدین کی ذمہ داریاں، اپنی شلوار اُتارو" وغیرہ۔۔
محسن خالد محسن کے ہاں انسانی موضوعا ت کا تنوع ملتا ہے۔ انھوں نے سیاست، مذہب، معاشرت، تعلیم وتربیت سے لے کر خاندانی نزاعات میں صدیوں سے اُلجھے اذہان کی ترجمانی کی ہے۔ مثال کے طور پر "بچے، اُستاد، ملک، سیاست اور شاہ جی" کالم پڑھ کر دیکھیں، جس درد اور المیے کا تاثر اس کالم میں نظر آتا ہے، ان کے ہم عصر کے ہاں یہ رجحان بہت کم پڑھنے کو ملتا ہے۔
سوشل میڈیا کے اس ہنگام پرور دور میں جہاں پڑھنے سے زیادہ سُننے اور سُننے سے زیادہ دیکھنے اور دیکھنے سے کر گزرنے کی دُھن سوار ہے وہاں شجر ممنوعہ ایسے موضوعات پر کیس سٹڈی بنا کر تجزیہ کر نا اور پھر انھیں کالم کی شکل میں پبلک کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔
محسن خالد محسنؔ کے ہاں میاں بیوی کے مقدس رشتے کے حوالے سے بیسویوں کالم ملتے ہیں۔ ان سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ یہ حادثہ ان کی زندگی میں اُس پیش آیا جب انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی نے ہمیشہ آزمائش میں مبتلا رکھا، کبھی صبح اور کبھی شام کی حالت میں خود کو ہمیشہ تنہا اور بے یار و مددگار پایا۔ بے کسی کے عالم میں کتاب کو سینے سے لگایا اور شعور کی روشنی سے آگے بڑھنے کا راستہ ٹٹولا۔
خوش قسمتی سے آزمائش کا یہ سلسلہ ختم ہوا تو ایک حادثات کی صورت تجربات کا خزانہ ہاتھ لگا جسے ضائع کرنے سے بہتر لکھ دینا زیادہ ٹھیک معلوم ہوا، اس لیے انھوں نے میاں بیوی کے رشتے متعلق متعدد کالم لکھے۔ "ہم سب" پر ان کے کالم کے بیشتر موضوعات اسی خاندانی نزاعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر "ایکس وائف کےنام کُھلا خط، ایکس وائف کے نام آخری خط، بیٹی کے نام کُھلا خط، باپ کے نام کُھلا خط، بندریا کے پاؤں جلنے لگے تو۔۔ " وغیرہ۔۔
محسن خالد محسن کے ہاں خونی رشتوں کی سفاکی کا موضوع زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے کالم پڑھ کر اور ان سے گفتگو کرنے کے بعد مجھے یہ احساس شدت سے ہوا کہ انھوں نے ہوش سنبھالتے ہی بہت دُکھ دیکھے ہیں، ان کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنی ذات میں کس قدر تنہا ہونے کے باوجود اپنے آپ میں ایک محفل آراستہ کیے ہوئے ہے۔
یہ شخص بہت جلد کسی سے گھلتا ملتا نہیں ہے، اس سے بات کرنا آسان نہیں ہے، اسے دیکھ کر یہ لگتا ہے جیسے یہ کسی بڑے قافلے سے بچھڑ گیا ہے، اس کی منزل کوئی اور ہے اور اس کا ٹھکانہ کہیں اور ہے، جانے سے کہاں سے آیا ہے اور کہاں اسے جانا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کسی چیز کی شدید جستجو ہے جو اسے باوجود کوشش کے مل نہیں رہی۔
محسن خالد محسن نے "ابا کے نام کُھلا خط" میں اپنے تعصب، تنگ نظری اور شعوری ادراک کا کُھل کر اظہار کیا ہے۔ اس قسم کےکالمز پڑھنے سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ بندہ اندر اور باہر سے ایک جیسا یعنی ٹرانس پیرنٹ ہے، اسے منافق نہیں کہا جاسکتا، اسے سر تا پا ٹٹول کر دیکھ لیجیے، یہ تحریر اور تقریر میں ایک جیسا ایک سا دکھائی دیتا ہے۔ اس بے باکی اور شفافیت کی وجہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں اس کے کالم پڑھنے اور ملاقات کرنے ہی آ پ کو پتہ چلے گا۔
محسن خالد محسنؔ کے پاکستانی سماج کے زوال کے حوالے سے دسیوں لکھے ہیں۔ مثال کے طور پر"پاکستانی نوجوان، ریاست، والدین اور بے روزگاری، معاشرہ، انسان، اقدار اور حیات، فکر کا جنازہ ہے ذرا دُھوم کے نکلے، پاکستانی سماج کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟" وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ محسن خالد محسن کے ہاں مذہبی معاملات پر رائے کا اظہار بھی ملتا ہے۔ ان کے قلم کی روانی ایسی ہے کہ لکھتے ہوئے یہ جذباتی ہو جاتے ہیں، تشبیہ استعارہ، علامت کی مدد سے ایسی تمثیلی تصویریں بناتے ہیں جنھیں سمجھنا ایک عام قاری کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ان کےکالم میں مشاہدے کی قوت اور تجربے کی تپش کو پوری طرح محسوس کیا جاسکتا ہے۔
مختصر یہ کہ محسن خالد محسنؔ عہدِ حاضر کے نوجوان بلاگرز اور کالم نگاروں میں بہتری بلاگزر اور کالم نگار ہیں۔ اکیسویں صدی کے نوجوان بلاگرز اور کالم نگاروں میں ان کا شمار یقیناً سرفہرست کیا جانا چاہیے۔ مین اسٹریم میڈیا پر حکومتی نمائندوں اور حکومتی پالیسوں کی رُوداد لکھنا اور ان کی ترقی و خوشحالی کے قصیدے پڑھنا معمولی اور عام سا شُغل ہے لیکن ایسے ممنوعہ موضوعات پرکُھل کرلکھنا جس پر بات کرتے ہوئے لوگ جھجک محسوس کریں اور جان کے خوف سے خاموش رہیں، یقیناً مشکل کام ہے۔