Hijaz Ki Mona Lisa, Safeya Binzagr
حجاز کی مونا لیزا، صفیہ بن زقر
ایک صبح ایک عرب پرائمری اسکول کی بچی صفیہ نے اپنے ہاتھ میں نازک پینٹنگ برش پکڑا اور وہ اسکول کی دیواروں میں سے ایک دیوار پر رنگ و روغن سے ایک پینٹنگ بنانے میں کامیاب ہوگئی، اس وقت یہ ایک غیر معمولی بات تھی، جو ایک ایسے معاشرے کو حیران کن تھی، جس معاشرے میں پلاسٹک آرٹس میں مہارت حاصل کرنے والا کوئی ایک فرض بھی موجود نہیں تھا۔ اس معاشرے میں اس فن سے متعلقہ کوئی سکول کوئی ادارہ موجود نہیں تھا، اس دن جدہ شہر میں پرائمری اسکول کے طلباء نے دیوار پر رنگوں کے باغات اور وسیع افق کے پھیلاؤ کو رنگوں سے سجا ہوا دیکھا۔
یہ صفیہ بن زقر کا بچپن تھا، جو آج کے جدید یا بیسیویں صدی کے سعودی عرب کی پہلی مصورہ اور ادیب تھیں، صفیہ بن زقر کا انتقال 84 برس کی عمر میں اسی ہفتے ہوا ہے، صفیہ بن زقر کو حجاز کی مونا لیزا بھی کہا جاتا ہے۔ کمال بات یہ ہے کہ جدید سعودی عرب کی پہلی حجازی فینمسٹ خاتون کا اعزاز بھی انہی کے پاس ہے، اپنے برش کے ساتھ پوری دنیا کا سفر کرنے والی صفیہ بن زقر اپنے آخری سالوں میں نظروں سے اوجھل رہی، لیکن سعودی عرب میں صفیہ بن زقر چھ دہائیوں سے زائد فن، ڈرائنگ اور دینے کی میراث چھوڑ گئی ہیں۔ صفیہ بن زقر کا کہنا تھا کہ "آرٹ ہمیشہ لوگوں کے لیے ہوتا ہے، اور لوگ ماضی، حال اور مستقبل ہوتے ہیں"۔
صفیہ بن زقر سنہء 1940 میں سعودی عرب کے مغربی شہر جدہ کے شہر حریت الشام میں پیدا ہوئیں۔ سات برس کی عمر میں ان کے خاندان نے مصر کا سفر کیا، اور وہ قاہرہ میں رہیں، وہیں انہوں نے اپنی ابتدائی مڈل اور ہائی سکول کی تعلیم حاصل کی، سنہء 1960 کے بعد برطانیہ میں تعلیم کے لیے سفر کیا، وہاں لندن کے سینٹ مارٹن کالج آف ارٹس میں دو سالہ مطالعتی پروگرام میں شامل رہیں، تین سال تک تعلیم حاصل کی، جس میں انہوں نے ڈرائنگ اور گرافکس میں ڈگری حاصل کی، یوں یہ پہلی سعودی خاتون تھی۔ جنہوں نے ڈرائنگ کے فن میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اپنے فن پاروں کی نمائش منعقد کرنے والی بھی یہ پہلی سعودی خاتون تھیں۔
سنہء 1963 میں صفیہ بن زقر جدہ واپس آئیں، تو وہاں بہت سی تبدیلیاں دیکھی۔ جیسے شہر کے لوگوں نے قدیم گھروں سے جدید گھروں کی طرف ہجرت کرنا شروع کی اور اپنے وراثتی رسم و رواج کو ترک کرنا شروع کر دیا تھا، اپنے مقامی مخصوص لباس کو جدید فیشن کے مطابق بدل دیا تو صفیہ بن زقر نے اپنے برش سے ماضی کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس نے پوری سنجیدگی کے ساتھ قدیم حجاز کی عمارتوں اور مکینوں اور ان کی سرگرمیوں اور واقعات کے ساتھ ساتھ اس کے رسم و رواج اور روایات کے ساتھ دوبارہ فن پاروں تخلیق کرنے کے لیے کام کیا۔
پچھلی صدی میں سعودی عرب میں ڈرائنگ سے متعلق ایسی کوئی گیلریاں موجود نہیں تھی، یہ پہلی خاتون تھی جنہوں نے اپنی ذاتی نمائش جدہ میں منعقد کی، جدہ کے ماڈرن ایجوکیشن ہاؤس میں سنہء 1968 میں انہوں نے اس وقت اپنی نمائش کے ساتھ دنیا بھر کا سفر بھی کیا، صفیہ بن زکرنے اپنے فن پاروں کو پیرس جانور لندن کے نمائشوں میں متعارف کروایا، یہ ایک مشہور پینٹنگ نے دریائے سین کے قریب منعقد ہونے والی نمائش کے بعد "حجاز کی مونا لیزا" کا خطاب حاصل کیا۔ مجموعی طور پر انہوں نے ذاتی طور پر 18 سے زائد نمائش اور چھ بین الاقوامی نمائش میں حصہ لیا پھر سنہء 1995 میں اپنا ایک ادارہ قائم کیا جس کا نام "دارا صفیہ بن زقر " رکھا۔
سعودی عرب میں پہلی بار پینٹنگز کے حوالے سے فنی تعلیم کا اغاز کیا ورکشاپس کی اور فنون لطیفہ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے فنی اور ثقافتی لیکچرز کا اہتمام کیا۔ 30 سال کے فائن آرٹ کے سفر کے بعد اس میں اس کی پینٹنگز اور اسکول کے ساتھ ساتھ اس کا اسٹوڈیو اور اپنی لائبریری بھی بنائی، سنہء 2000 میں، ان کی کتاب "سعودی ورثے کے ساتھ تین دہائیوں کا سفر" شائع ہوئی، جس میں اپنے 30 سال کی مسلسل محنت اور سفر کے علاؤہ اپنے ادارے کے مقاصد اور سرگرمیوں کی وضاحت لکھی ہے، تاکہ اس شاندار ورثے کو ایک جمالیاتی شکل میں دستاویزی شکل دی جا سکے۔
صفیہ بن زقر حجازی خواتین کی اس پہلی نسل میں سے ایک تھیں، جو اس ملک کی بیٹیوں کی پے درپے نسلوں پر نہ صرف تشکیل کی سطح پر بلکہ "فیمنزم" پر بھی اپنی ابتدائی نقوش چھوڑنے کے قابل بنیں۔ سعودی معاشرے میں ستر کی دہائی کی لڑکیوں کی آگاہی کے میدان میں ایک مثال کے طور پر ان کی انٹرایکٹو "علمی اور سماجی" موجودگی، جو ایک ایسے شعبے میں"شناخت اور شہرت حاصل کرتی ہے" جو حجاز کی خواتین کو معلوم نہیں تھی۔
صفیہ بن زقر کی پینٹنگز میں پلاسٹک آرٹ کی اکثریت نسوانی پلاسٹک آرٹ کے مظاہر دکھاتی ہے، سب سے کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نسائی پیغام کو فنی ذہانت کے ساتھ ایسے پیش کیا، جو معاشرے کے ساتھ متصادم بھی نہیں تھا، عام حقوق نسواں کے نعروں سے دور تاکہ ان کا کام غلط تشریحی تفہیم میں نہ پڑ جائے، کہ وہ خواتین کی جمالیاتی اور سماجی قدر کو اجاگر کرنے کے لیے کام کررہی ہیں، معاشروں میں پیداواری اور انسانی قدر کی حامل خواتین کو مثال کے طور پر، پیش کیا، "خواتین جو ہاتھ سے کپڑے دھوتی ہیں" کے بارے میں ان کی ایک پینٹنگ ہے، جو ماضی میں حجاز کے معاشرے میں خواتین کے لیے باقاعدہ ایک پیشہ تھا۔
جہاں خواتین اپنے خاندان کے لیے یا اجرت کے لیے کپڑے دھونے کے پیشے سے وابستہ تھی، یہ ایک پیشہ ہے جو ماضی میں حجاز کے معاشرے میں، اپنے خاندان کے لیے یا اجرت کے لیے کیا کرتی تھی، اور اس پیشے کو اس زمانے میں مقام حجازی زبان میں جو خصوصا عورت کے لیے مخصوص ہوتا تھا "الصبّانة" کہا جاتا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے فرانسیسی مصور Jean-François Millet کی پینٹنگ کے ماحولیاتی مساوی تصور کی جاتی ہے، جسے "The Harvesters" یا خواتین جو فصل اکٹھی کرتی ہیں، اور وہ پینٹنگ اس انسانی اشتراک کا اظہار ہے، جو زرخیز عورت اور زرخیز زمین کے درمیان ہے، جو عورت کو انسانی پیداوار میں اور ذریعہ معاش کی پیداوار میں زرخیزی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
میں اس سے پہلے کئی بار عرب معاشرت کی پینٹنگز پوسٹ کرتا رہتا ہوں، زیادہ تر ان مصوروں میں مستشرقین یا مغربی ممالک کے اسکالرز ہی نظر آتے ہیں جو اپنی پینٹنگ میں حسی یا الہامی کیفیات کے ساتھ ساتھ اس جدید فن میں عرب تاریخ کے مراحل دکھاتے ہیں، لیکن صفیہ بن زقر پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے خاص طور پر نوآبادیاتی دور میں اور اس سے پہلے کے کاموں کی علامتی قدروں کو اپنے فن پاروں میں موضوع بنایا۔
کئی متنازعہ موضوعات سمیت اپنی ڈرائنگز میں جدہ شہر اور اس کے قدیم محلوں سے متاثر تھی، کیونکہ انہوں نے جدہ کی سماجی اور ثقافتی زندگی کے متعدد لوک داستانوں کے پہلوؤں کو دکھایا، جس میں وہاں کے ماحول، وہاں کے ملبوسات، وہاں کے آثار قدیمہ کے آرکیٹیکچرل پہلو، وہاں کا ورثہ، وہاں کی خواتین کے ماضی اور معاشرے کے ماضی کی نمائندگی کی، جسے اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (UNESCO) نے ورثے کی فہرست میں شامل کیا۔
صفیہ بن زکر کو ان کی خدمات کے بدلے میں سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سنہء 2016 میں کنگ عبدالعزیز میڈل سے نوازا تھا۔ اس میڈل کو دیگر اعلیٰ اعزازات اور اعزازات میں شامل کیا گیا، جس میں"کپ اور ڈپلومہ ڈی ایکسیلنس" ایوارڈ بھی شامل ہے۔ جو Grulladora سے سنہء 1982 میں اٹلی میں حاصل کیا تھا۔