Hazrat Imam Hussain
حضرت امام حسینؓ
حضرت امام حسینؓ خدا ترس تھے آپکی سخاوت کے سیکڑوں واقعات ہیں۔ آپ کا اخلاق سب سے افضل تھا جس کے قائل دوست دشمن سبھی تھے۔ حضرت علّامہ جامی فرماتے ہیں حضرت امامِ عالی مقام سیِّدُنا امامِ حُسینؓ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارَک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار (یعنی گال) سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضِیا بار (یعنی اطراف روشن) ہو جاتے۔ (شواہد النبوۃ فارسی، ص228)
آپ نے پچیس حج کیے۔ آپ شجاعت اور سخاوت میں اس قدر بلند تھے کہ نبی کریم ﷺ خود فرمایا کرتے تھے کہ حسینؓ میری سخاوت اور میری جرات ہے۔ آپؑ کے در سے کوئی سائل واپس محروم نہ جاتا۔
ایک واقعہ حضرت امام حسینؓ کی پشت پر موجود نشانات کے بارے میں انتہائی ایمان افروز۔ آپؑ راتوں کو روٹیوں اور کھجورں کے پشتارے اپنی کمر پر اٹھاکر لے جاتے اور اسے غریب بیوائوں اور یتیم بچوں میں تقسیم کر دیتے۔ پشتارے اٹھانے کی وجہ سے آپؑ کی پشت مبارک پر نشان بھی پڑ گئے تھے۔ آپؑ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ "جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمہارے سامنے سوال کے ليے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمہارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو، کم سے کم اپنی ہی عزتِ نفس کا خیال کرو"۔
جناب رسول کریم ﷺ کے شہزادے حضرت امام حسینؑ کی شہادت کا واقعہ یقیناً کچھ ایسا ہی دردناک ہے مگر جس قدر صبر کی تلقین ہمیں دنیا کےاس عظیم سانحے سے ملتی ہےوہ بے نظیر ہے۔ حضرت امام حسینؑ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان کو ہوئی۔ فاطمہؓ کے گھر ننھے دلارے کی خبر سن کر ہادی برحق ﷺ علی المرتضیٰؓ کے گھر تشریف لائے اور اپنے لعل کو گود میں لے کر ان کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہہ کر اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں دی اور یوں نبیوں کے تاجدار ﷺ کا لعاب دہن ننھے حسینؑ کی گھٹی بنا۔ آپ کا عقیقہ پیدائش کے ساتویں دن کیا گیا۔ حضرت امام حسینؑ کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی کہ سن کر ہی رشک آتا ہے۔ خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ، شیر خدا حضرت علی ابن ابی طالبؑ، جگر گوشہ رسول ﷺ سیّدہ فاطمة الزہرہؓ آپ کے اساتذہ تھے۔
ایک طرف پیغمبرِ اسلام حضور نبی کریم ﷺ جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زہراؓ جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں، ایسے خوبصورت اور نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ہوئی۔ نبی اکرم ﷺ حضرت امام حسینؑ کے ساتھ بے انتہا محبت رکھتے تھے۔ نانا کے لاڈ اور پیار سے پلے حضرت امام حسینؑ اپنے نانا کے کاندھوں پر سوار ہو جاتے، کبھی نبی کریم ﷺ حضرت امام حسین کو سینہ پر سوار کرتےکبھی ایسا بھی ہوتا کہ حسینؑ نماز کی حالت میں اپنے نانا کے کاندھوں پر سوار ہو جاتے اور آپ ﷺ ان کی وجہ سے اپنا سجدہ طویل کر دیتے۔ ایک بار جب حسینؑ حالت نماز میں حضور ﷺ کے کاندھے پر سوار ہوئے اور حضور ﷺ نے سجدہ طویل کر دیا، تو نماز سے فارغ ہو کر حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ "دیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو"۔
سیدنا حضرت حسینؓ کی شہادت تاریخ کا ایک الم ناک سانحہ ہے جس کو امت کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ کربلا کی سرزمین پر نبی کریم ﷺ کے مبارک اور برکت خاندان کا مقدس ترین لہو بہا اور خانوادہ نبوت کے چشم و چراغ حضرت حسین اپنے اہل خانہ کے ساتھ جام شہادت نوش فرما کر مقصد زندگی کا ناقابل فراموش سبق دے کر گئےلیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس قدر عظیم شہادت کے باوجود آج ملت نے اپنی قربانیاں اور مقصود شہادت کو فراموش کر دیا۔ اور صرف محرم کے مہینے میں چند دنوں کے لیے ذکر کرکے اس واقعہ کو مکمل اور تذکرہ کرنا کافی سمجھ لیا ہے۔ دین کے لیے اور نبوی تعلیمات کے لیے جو ناقابل فراموش کارنامہ حضرت حسینؑ اور اپ کے مبارک خاندان نے انجام دیا اس کو نظر انداز کر دیا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم شہادت حسین کے مقصود کو سمجھیں، اس سے پیغام حاصل کریں اور تیرہ تاریخ زندگی کو روشن و منور کریں سیدنا حسینؓ کی شہادت زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں کیا سبق اور پیغام دیتی ہے جگر گوشہ رسول ﷺ سید شاب اہل الجنتہ حضرت حسینؑ کی دردناک مظلومانہ شہادت پر تو زمین وہ اسمان روئے جنات روئے جنگل کے جانور متاثر ہوئے انسان اور پھر مسلمان تو ایسا کون ہے جو اس کے درد محسوس نہ کرے یا کسی زمانے میں بھول جائے لیکن شہدائے کربلاؓ کی روح مقدس درد و غم کا رسمی مظاہرہ کرنے والوں کی بجائے ان لوگوں کو ڈھونڈتی ہے جو ان کے درد کے شریک اور مقصد کے ساتھی ہوں حضرت امام حسینؓ فرماتے ہیں۔
ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کہیں بہتر ہے۔ حضرت امام حسینؑ کی شان مبارک ہمیں حضرت امام حسینؓ اور انکے اصحاب کی جانب سے دی گئی لازوال قربانی کوسمجھنا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں واقعہ کربلا تاریخ انسانی کا ایک اندوہناک سانحہ ہے لیکن اس کے پیچھے اس فلسفہ کو جاننا بہت ضروری ہے جس مقصد کے لئے یہ عظیم قربانی پیش کی گئی۔ وہ مقصد تھا امام حسینؑ اور ان کی جماعت کو یزید کی فسادی حکومت سے لڑنا پڑا۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کی بھی قربانی دی تاکہ حق کی فتح کیلئے لڑنے والوں کی آواز بلند ہو سکے۔ ان کی شہادت کی یاد میں، ہمیں ان کی بہادری اور شجاعت کو یاد رکھنا چاہیے۔
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد