Wednesday, 17 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mahmood Fiaz/
  4. Gorastan Ki Yaadein

Gorastan Ki Yaadein

گوراستان کی یادیں

ہیتھرو ائیرپورٹ پر میرے لیے حیرانی یہ تھی کہ سانپ کی طرح بل کھاتی قطار تیزی سے ختم ہوتی جاتی تھی۔ امیگریشن آفیسرز تیزی اور چستی سے کام کر رہے تھے۔ جبکہ میں پچھلے چھ سال سعودی ائیرپورٹوں پر اس بات پر مکمل ایمان لا چکا تھا کہ اگر دس لوگ امیگریشن قطار میں لگے ہوئے ہیں تو سعودی امیگریشن والا دو بار پیشاب کرنے اور اور تین بار اپنے ساتھی سے کوئی بات پوچھنے جائیگا۔

میری باری آنے پر مجھ سے چھاتی کا ایکسرے مانگا گیا، جو میرے پاس نہیں تھا۔ بغلی دروازے کی طرف بھیج دیا گیا۔ جہاں ایک تجربہ کار نرس مجھ جیسوں کو ایکسرے کے لیے شرٹ اتارنے کا کہہ رہی تھی۔ سچ پوچھیے تو گوروں کے دیس میں اتنی جلدی کپڑے اتارنے کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

پون گھنٹے کے بعد امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بڑھا تو ہال خالی تھا، ایک کھڑی ہوئی خاتون نے مجھ سے ایکسرے لے لیا، اور کاؤنٹر پر پاسپورٹ رکھ کر مہر ٹھونک دی۔ شائد وہ میرا ہی انتظار کر رہی تھی۔ کیونکہ میرے باہر نکلتے ہی وہ بھی ایک جانب کو بڑھتی چلی گئی۔

سامان لینے کے مرحلے پر میں شدید تلاشی دینے کے موڈ میں تھا۔ نائن الیون اور دہشتگردی کے خلاف ائیرپورٹوں پر سختی عروج پر تھی۔ میرا خیال تھا کہ میرا سارا سامان کھول کر درجنوں سوال پوچھے جائیں گے، مگر سامان والے ہال میں درجنوں سوٹ کیسوں کے درمیان پڑا ہوا میرا سوٹ کیس ویسے ہی پڑا تھا۔ جس کو لے کر باہر کی جانب بڑھا تو نہ کوئی آفیسر چیکنگ کرنے آگے آیا اور نہ کسی نے روکا۔

عجیب دھوکے کا احساس ہوا، جیسے کسی ایجنٹ نے انگلینڈ کا کہہ کر چولستان کے صحرا میں اتار دیا ہو۔۔ میرے اردگرد چلتے پھرتے لوگ مجھے مصنوعی لگنے لگے تھے۔ میری جنریشن جو تارڑ کے ناول پڑھ کر جوان ہوئی ہو، کم از کم انکے لیے پہلی بار انگلستان کی سرزمین پر اترتے وقت کچھ تو خاص ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اردگرد نگاہ ڈالی، میں گوروں کے دیس ہی میں تھا، مگر کالے، پیلے، خاکی سب رنگ ہی نظر آ رہے تھے۔ ایک میلے کا سماں تھا جہاں پوری دنیا کے لوگ جمع ہوں۔

اکا دکا گورا گوری جو نظر بھی آئے تو ایک مایوسی اور افسوس نے آن گھیرا۔ کمزور جسم، ناتواں کاندھے، عام سے انسانوں جیسے۔ اکثر کے تو لباس بھی میری پتلون سے کم قیمت کے لگ رہے تھے۔ اپنے آقاؤں کی اس حالت پر میں نے اپنے اندر شدید شرمندگی محسوس کی، جیسے میرا قد چھوٹا رہ گیا ہو۔ مجھے پر حکومت کرنے والے کا رعب دبدبا ہونا چاہیے تھا، تاکہ میں"فخر" سے سر اٹھا کر چل سکتا۔

ائیرپورٹ سے باہر نکلنے کے لمبے راستے پر چلتے ہوئے میں نے کافی پیتے کئی ایسے گورے گوریوں کو پہچاننے کی کوشش کی جن کو لڑکپن سے "فلموں" میں دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا تھا کہ ایک روز انکے ملک ضرور جانا ہے۔ کئی ایک کو تو پہچان بھی لیا۔

ہم گوروں سے متعلق پہلا سبق بے حیائی کا سیکھتے ہیں۔ میری نظریں مسلسل دائیں بائیں اس بے حیائی کو ٹریس کرنے کی کوشش میں ناکام واپس لوٹ رہی تھیں۔ گھٹنوں سے لمبے اسکرٹ بلاؤز پہنے گوریوں کو دیکھ کر مجھے سعودی آرامکو میں اپنی سعودی سپروائزر یاد آگئی، جس کی شارٹ اسکرٹ گوریوں شرمندہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ میٹنگز میں اکثر نظر جھکانے کی بجائے اٹھائے رکھنا زیادہ بہتر آپشن لگتا۔

لیسٹرؔ شہر کو جانے والی بس کے انتظار میں کھڑا میں سوچ رہا تھا کہ میرے اردگرد آتے جاتے سارے گورے اور گوریاں اگر گھر جا کر وہ سب کریں گے جس کی ہم نے فلمیں دیکھ رکھی ہیں تو ان میں اور ہم میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ دنیا پر حکومت کرنے کی واحد وجہ جو مجھے سمجھ آئی تھی، وہ تو پہلے دن ہی غلط ثابت ہو رہی تھی۔

Check Also

Ghunda Riyasat Ke Badmash Abad Kar

By Wusat Ullah Khan