Bivi Aik Nemat
بیوی ایک نعمت
مجھے پراٹھے کھانا پسند ہے۔ مگر پراٹھوں سے ہاتھ کو لگنے والا گھی مشکل سے برداشت ہوتا ہے۔ تو کبھی کبھی بیگم جب اچھے موڈ میں ہو تو نوالے بنا بنا کر مجھے دیتی ہے۔ اور میں مزے سے موبائل استعمال کرتے ہوئے پراٹھا کھاتا ہوں اور اپنے سسرال کی تربیت کو دعا دیتا ہوں کہ فیمنزم کے اس پرآشوب دور میں اتنی اچھی بیوی مجھے نصیب ہوئی۔ ورنہ وہ کہہ سکتی تھی اپنا پراٹھا، اپنا منہ اور اپنے نوالے۔
خیر، آج اتفاق سے بیگم کی طبعیت ناساز تھی تو میڈ کھانا ٹرے میں رکھ کر مجھے بیڈ پر ہی دے گئی۔ بیگم پاس ہی لیٹی تھی، مگر کھانے کے لیے نہیں اٹھی تو میرا دل بھر آیا کہ مجھے اتنے پیار سے پراٹھے کھلانے والی آج طبعیت کی خرابی سے خود نہیں کھانا چاہتی تو کیا ہوا۔ میں کھلا دیتا ہوں۔ آلو میتھی کا سالن تھا، ساتھ پودینہ ہری مرچ کا رائتہ اور گرما گرم چپاتیاں۔ سلاد میں کٹے ہوئے کھیرے کے ٹکڑے اور گاجر۔
میں نے احتیاط سے چھوٹا نوالہ بنایا، میتھی سے اور رائتے سے بھرا اور بیگم کی طرف بڑھا دیا۔ بیگم نے ذرا حیرانی سے میری جانب دیکھا اور کھانے کے لیے منہ کھول دیا۔ جیسے چڑیا کے بوٹ دانہ کھاتے ہیں اور آہستگی سے چبانے لگی۔ میں نے بہت خوشی محسوس کی، واقعی یہ تو بڑا رومینٹک سا کام ہے اور بیگم بھی خوش ہو رہی ہے۔ میں سوچ رہا تھا، ویسے بھی اسلام میں بھی تو بیوی کو۔
میں نے سوچتے سوچتے دوسرے نوالے کو بنانے کے لیے روٹی توڑی تو بیگم نے چباتے چباتے اشارہ کیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔ میں کسی محبت بھرے جملے کے انتظار میں رک گیا۔ بیگم نے لقمہ نگلا اور ذرا سا آگے جھک کر آہستگی سے کہا، آلو نہیں تھا اس میں۔
اچھاااا، مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔ میں چونکہ میتھی زیادہ پسند کرتا ہوں، اکثر لوگ میتھی کو اسکی کڑواہٹ کی وجہ سے ناپسند کرتے ہیں تو وہ آلو کے ساتھ مکس کرتے ہیں اور میتھی کم رکھتے ہیں۔ سمجھ گیا، میں نے دوسرے نوالے میں آلو زیادہ لیا، ذرا کم میتھی، اور رائتے میں ڈبو کر بیگم کے حضور پیش کر دیا۔ بیگم خوشی سے دوسرا نوالہ چبانے لگی اور میں اپنے لیے روٹی توڑنے لگا۔
اپنا نوالہ کھا کر میں نے بیگم کے لیے تیسرا نوالہ بنانا چاہا تو بیگم نے پھر منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے اشارہ کیا۔ میں سمجھ گیا کہ مزید ہدایات فیکس ہونے والی ہیں۔ خیر بیگم نے دوسرا نوالہ ختم کر کے بتایا کہ تم نے رائتہ زیادہ لگا دیا تھا، اتنا رائتہ نہیں لگاتے۔
اوہ ہو، اب سمجھ میں آیا کہ مسئلہ کدھر تھا۔ اس بار میں نے سنیارے کی سی احتیاط کے ساتھ رتی ماشہ تول کر نوالے میں پہلے آلو، پھر میتھی، اور پھر رائتے کی مناسب مقدار شامل کی اور بیگم کی جانب بڑھا دیا اور خود اپنے لیے بھی نوالہ بنانے لگا۔ اس بار مجھے اپنا نوالہ بناتے وقت یک گونہ آزادی محسوس ہو رہی تھی، میں نے مزے سے لاپرواہ انداز میں نوالہ بھرا جتنی میتھی، جتنا آلو آ گیا سو آ گیا، رائتے کی ڈبکی پر بھی میں نے ہاتھ کو کھینچا نہیں۔ تب سمجھ میں آیا کہ ہم مردوں کا پیٹ کیوں بڑھ جاتا ہے، ٹھونستے جو انے وا ہیں۔
چوتھے نوالے کے لیے میں نے بیگم کی طرف دیکھا جو اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کیا ہوا، میں نے پوچھا۔ کچھ نہیں میں ہمت کر کے خود ہی کھا لیتی ہوں، بیگم نے مجھے تسلی دی۔ مگر مجھ پر تو بیگم کی جوابی خدمت کا بھوت سوار تھا، میں نے اصرار کیا، نہیں نہیں میں کھلاتا ہوں ناں۔ نہیں، بیگم نے سختی سے انکار کر دیا۔ میں خود کھاتی ہوں۔ مگر کیوں؟ میں نے وہ سوال پوچھا جو نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔
بیگم نے لحاظ ویہاظ بالائے طاق رکھا اور کہنے لگی، تم سے تو ایک نوالہ ٹھیک سے نہیں بنتا، کبھی میتھی زیادہ، کبھی رائتہ، اور کبھی تینوں چیزیں ٹھیک ہوں تو اتنی دیر لگاتے ہو کہ روٹی ٹھنڈی ہو جائے، کھلانے کا انداز بھی ٹھونسنے جیسا ہے، لگتا ہے نوالہ اب گرا کہ تب گرا۔ پھر تمہاری اپنی رفتار عجیب ہے کھانے کی۔ ایک نوالہ کھا کر مجھے دو تو ابھی پہلا ختم نہیں ہوتا، اور دو نوالے ختم کرو تو میں انتظار میں ہوتی ہوں کہ کب اگلا نوالہ ملیگا؟ اور سلاد بھی تو دیتے ہیں ساتھ۔ تو بس رہنے دو یہ چونچلے۔
میں خاموشی سے اپنا کھانا کھانے لگا۔ سوچ یہ رہا تھا یااللہ تیری یہ مخلوق پیاری بھی ہے اور مفید بھی۔ مگر اسکے نخرے۔ تیری پناہ بس۔
بیگم نے کھاتے کھاتے پیار سے پوچھا کیا سوچ رہے ہیں؟ کک کچھ نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں۔ میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔