Mazafaat Se Yale Tak Ka Safar
مضافات سے YALE تک کا سفر
فلم Hillbelly Elegy جے ڈی نام کے ایک لڑکے کی کہانی پر بنی ہے جو کہ پہاڑی مضافاتی علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ فلم بیک وقت ماضی اور حال میں چلتی ہے۔ ماضی 1997 کے زمانے کی یادیں ہیں جبکہ حال 2011 میں ہے۔ حال میں جیڈی ییل یونیورسٹی کا طالبِ علم ہے جو کہ تین نوکریاں بھی کرتا ہے۔ وہ اوشا نام کی لڑکی کے ساتھ ڈیٹ بھی کرتا ہے جو کہ واشنگٹن میں انٹرنشپ کرتی ہے۔ جیڈی بھی واشنگٹن میں انٹرنشپ کا خواہشمند ہوتا ہے اور ییل کے انٹریوز والے ہفتے میں وہ ملاقاتیں کر رہا ہوتا ہے کہ اس کی بہن اسے گھر بلاتی ہے کیونکہ ان کی ماں ہیروئن کی زیادتی کے باعث ہسپتال پہنچ چکی ہوتی ہے۔
اس کے بعد جیڈی گھر واپسی کیلئے کار چلاتے ہوئے پے در ہے وہ سارے واقعات یاد کرتا ہے جو کہ اس مضافاتی نوجوان کے ماضی سے جڑے ہوتے ہیں۔ 1997 میں ایک دن کار چلاتے ہوئے اس کی ماں بیو سخت چلاتی ہے اور اس کی پٹائی کرتی ہے کیونکہ جیڈی اس کے بوائے فرینڈ کے گھر شفٹ ہونے کے آئیڈیا کو پسند نہیں کرتا۔ ماں سے ڈر کر جیڈی ایک گھر میں پناہ لے لیتا ہے اور بیو کے پاگل پن کی وجہ سے پولیس انوالو ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصے بعد جیڈی کا نانا فوت ہو جاتا ہے جس کے بعد اس کی ماں اپنے دونوں بچوں کے ساتھ، اپنے باس سے شادی کر کے اس کے گھر شفٹ ہو جاتی ہے۔ جیڈی اپنے سوتیلے بھائی کے ساتھ نشہ اور آوارہ گردی میں وقت برباد کرتا ہے اور ایک دن اپنی نانی کی گاڑی کا بھی نقصان کروا آتا ہے۔
اس کے بعد اس کی نانی اسے اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ وہ اگرچہ بہت کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں لیکن جیڈی اپنی نانی کے ساتھ رہ کر اچھی تربیت پاتا ہے۔ غربت کے پیشِ نظر وہ چھوٹی عمر سے ہی کام کرنے لگتا ہے اور کالج کے بعد ییل یونیورسٹی تک پہنچ جاتا ہے۔
ادھر حال میں اس کی ماں کو ہسپتال میں بیڈ نہیں ملتا، اس کا دوسرا شوہر بھی اس کا سامان باہر پھینک دیتا ہے جس کے بعد وہ اسے ایک ہوٹل کے کمرے میں ٹھہرا آتا ہے جہاں اس کی بہن ماں کے پاس پہنچنے والی ہوتی ہے۔ وہ ساری رات سفر کر کے صبح انٹرویو کیلئے شہر پہنچتا ہے۔ فلم اس کے بعد ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے بعد جیڈی کو انٹرنشپ بھی ملتی ہے، وہ اچھی نوکری اور کامیاب اداروں تک کا سفر بھی طے کر لیتا ہے اور اس کی زندگی ان خوش قسمت لوگوں جیسی بن جاتی ہے جو دنیا کا ایک فیصد ہیں۔
دنیا میں ہر رنگ، نسل، ذات اور مذہب میں دو قومیں پائی جاتی ہیں ؛ ایک امیر، ایک غریب۔ امیروں اور غریبوں کے مذاہب اور نسلیں ایک لیکن رہن سہن اور وسائل بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ امیر اور غریب کی آمدن اور معیار زندگی میں فرق بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ علم اور عقل بھی وہیں نمو پاتی ہیں جہاں پیٹ بھرا ہوا ہو۔ غریب گھرانوں میں تو لوگ دو وقت کی روٹی پوری کرتے کرتے ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس سب کا کیا مطلب ہے؟
کیا مسٔلے کا حل یہی ہے کہ سویت یونین کی طرح سب کو ایک ہی طرح کے کپڑے اور کھانے ملنے لگیں؟ کیا اس کے بعد ہر جگہ امن و شانتی ہو جائے گی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے منصوبے ماضی میں بھی ناکام ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ مسٔلوں کا حل سب جو ایک جیسی ٹوپی پہنانا نہیں بلکہ مواقعوں اور روزگار میں اضافہ کرنا ہے۔ لوگوں کی قیمت خرید بڑھانا ہے جو تبھی بڑھے گی جب ملک ترقی کرے گا۔
دنیا میں امیر کو ضرورت سے زیادہ میسر ہے۔ اول تو غریب حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ جمہوریت امیر کا نیزا نہیں بلکہ غریب کی ڈھال ہے۔ اگر حکومت خود نہیں کر سکتی تو انھیں امیروں پر مناسب ٹیکس لگا کر ورکنگ کلاس کی فلاح و بہبود کی طرف دھیان دینا چاہیئے تا کہ دنیا میں زیادہ سے زیادی جیڈی ییل میں پڑھائی اور معروف اداروں میں کام کے ذریعے کامیاب ہو سکیں۔