Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Maaz Bin Mahmood
  4. Saboot, Jaali Bhi Ho Sakte Hain

Saboot, Jaali Bhi Ho Sakte Hain

ثبوت، جعلی بھی ہو سکتے ہیں

سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک کی دنیا کے پیچھے بوٹس یا روبوٹس نہیں ہوتے، اس کے پیچھے ایک زندہ حیات انسان ہوتا ہے جو حقیقی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے۔ گویا جو معاشرتی مسائل حقیقی دنیا میں وجود رکھتے ہیں آپ سوشل میڈیا پر بھی کم و بیش وہی اور ویسے ہی مسائل دیکھیں گے۔ حقیقی دنیا میں جھوٹ عام ہے، سوشل میڈیا اسی کا تسلسل ہے۔ حقیقی دنیا میں دھوکہ فریب عام ہے، سوشل میڈیا پر آپ کی میری جعلی پروفائل بنا کر پیسے اینٹھنے کی کوشش ویسی ہی عام ہے۔ حقیقی دنیا میں دشنام طرازی عام ہے، سوشل میڈیا میں یہ معاملہ اس سے کہیں بڑھ کر عام ہے۔

مزید آگے چلنے سے پہلے ایک عدد ذاتی تجربہ جو چند برس قبل پہلے بھی لکھ چکا ہوں، آج ایک بار پھر اس کی ضرورت پیش آرہی ہے۔

پاکستان سے باہر نکلنے سے ذرا پہلے باچیز ذرا ذرا اوقات بھولنے لگا تھا۔ چونکہ چادر بس ذرا سی بڑی ہوئی تھی لہذا سمجھ لیں بس پاؤں کی انگلیاں باہر نکالنے جتنے پیر پھیلاتے تھے۔ پہلے پہل راولپنڈی گھر تا پشاور اماں ابا کے پاس پیر ودھائی سے جانا ہوتا تو بعد ازاں ڈائیو اڈے سے ذرا پہلے نیو خان سے جانے لگے۔ پھر نیو خان میں جتنے بندے اتنی سیٹوں کی بجائے آخری دو سیٹ والی قطاروں کے پیسے دے دیا کرتے کہ بچے ذرا سکون سے چلے جائیں گے ہنستے ہنساتے بغیر کسی کو لاتیں ہاتھ مارے۔ پھر تھوڑی سی اور پسلی بڑھی تو نیو خان کی جگہ کرولا ٹو ڈی کروا کر پشاور جانے لگے۔

یہ ٹو ڈی سے پہلے والے عہد کی بات ہے۔ ایک دن میں ابا مرحوم و دیگر عائلی ممبران کے ساتھ نیو خان میں راولپنڈی تا پشاور پہنچا۔ مجھے وجہ یاد نہیں البتہ ہم جلدی میں تھے۔ فورا ٹیکسی پکڑی اور پیسوں کی بات کیے بغیر بیٹھ گئے۔ اڈے سے باہر نکلتے ہوئے ہر گاڑی والے کو کسی قسم کا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس کام کے لیے "بڑوں" نے کوئی چھوٹا موٹا "لوکل کن ٹٹا" پالا ہوا ہوتا ہے جس کی وضع قطع دیکھ کر ٹیکسی رکشے والے دس بیس روپے دینے میں عافیت جانتے ہیں۔ اس دن ٹیکسی والے اور اس کن ٹٹے کے درمیان کوئی تو تو میں میں ہوگئی۔ ہمیں دیر ہو رہی تھی۔ ابا جی ٹیکسی والے پر چڑھ دوڑے۔ ٹیکسی والے نے دہائی دی کہ یہ کن ٹٹا زیادتی کر رہا ہے۔ میں اور ابا مرحوم اتر کر درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرنے لگے کیونکہ ہمیں جلدی تھی۔ راستہ تو کیا نکلنا تھا کن ٹٹے نے ذرا اکڑ دکھائی۔ میں تب ڈیل ڈول میں بھی خوب تھا اور لہو بھی ذرا جلد گرم ہوتا تھا، نے کن ٹٹے غنڈے کو پکڑ کر دو چار گھونسے رسید کر دیے۔

کن ٹٹا پہلے تو حیران ہوا کہ یہ فارمی بابو نے سب کے سامنے ہی لے لی۔ پھر اچانک سے اس نے پینترا بدلا اور اپنا گریبان پھاڑنا شروع کر دیا۔ میں حیران کہ اسے کیا ہوا۔ ابھی غنڈہ گردی کر رہا تھا اب بین ڈال رہا ہے۔ اتنے میں کن ٹٹے نے اگلی موو کھیلی۔ اگلے نے نیچے لیٹ کر سڑک سے باقاعدہ سر پھوڑنا شروع کر دیا۔ بس اڈا تھا، یعنی مصروف مقام۔ عوام اکٹھی ہو چکی تھی، مزید نے ابھی اکٹھا ہونا تھا۔ ابا مرحوم نے یہ دیکھا تو مجھے ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا اور کہا چل اب۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور نکل پڑے۔

میں تپا ہوا تھا۔ ابا سے پوچھا یہ کیا بات ہوئی؟ ابھی تو میں نے اس کی کٹ لگائی ہی نہ تھی۔ ابا جو یقیناً کسی وجہ سے ابا ہوتے ہیں، نے دو چار اصطلاحات کن ٹٹے کے اجداد کی شان میں بیان کرتے ہوئے سمجھایا کہ بیٹا ابھی یہاں پولیس آجاتی اور بلاوجہ معاملہ بگڑ جاتا۔ وہ خود کو زخمی کرکے تجھ پر حملے کا مدعا ڈال دیتا ہم پھر ادھر ادھر رل جاتے۔ وہ لوگ جو ابھی یہ سب دیکھنے موجود تھے کچھ دیر میں ان سے بڑھ کر زندہ لاشیں پہنچ جاتیں جنہوں نے وقوعہ اپنی آنکھوں سے تو نہ دیکھا تھا البتہ تجھے ٹھیک ٹھاک اسے خونم خون دیکھ کر تجھے گالیاں الگ دیتے، تجھ پر غریب کا استحصال الگ لگاتے اور تیرے خلاف گواہی بھی دے دیتے۔

ارد گرد پولیس سے تعلق رکھنے والے افراد ڈھونڈیے اور ان سے پوچھیے کہ اس قسم کی نزاکت سے محروم مردانہ سافٹ و ہارڈ وئیر رکھنے والی جانے کتنی ہی خواتین نما اپنا گریبان پھاڑ کر کسی پر بھی الزام لگانے میں کتنا وقت لگاتی ہیں۔ کئی مرد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ٹانگ پر گولی مار کر مخالف پر اقدام قتل کا کیس ڈال دیتے ہیں۔ اگلا پھر لگا رہے اپنی صفائی میں ایڑھیاں رگڑتا رہے۔ پیسے والا ہوگا تو چھ ماہ سال بعد شاید کسی کروٹ معاملہ پہنچا دے۔ نہیں ہوگا تو عدالت جانے پیشیاں جانے اور وکٹم جانے۔

بعینہ یہی معاملہ سوشل میڈیا پر بھی نافذ العمل ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک عدد جرم رپورٹ ہوا۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہ جرم جب تک ثابت نہیں ہوجاتا، "مبینہ جرم" رہے گا الا یہ کہ کسی نے خود سے اپنے جرائم پر مبنی سرگزشت ناچ ناچ کر شائع نہ کی ہو۔ اگر رپورٹ شدہ جرم واقعی جرم کی تعریف پر پورا اترتا ہے تو سب سے پہلے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رپورٹ ہونا چاہیے۔ اصولاً ایسا جرم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رپورٹ کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر آنا چاہیے۔ لیکن ضروری نہیں کہ میری نظر میں جو اصول ہو وہ آپ کے لیے بھی اصول کی حیثیت رکھتا ہو۔ ممکن ہے آپ سوشل میڈیا پر آگہی پھیلانا چاہ رہے ہوں۔

ایسی صورت میں جرم کے ساتھ مبینہ مجرم یا ملزم کے نام کی تشہیر کرنے میں حد درجہ احتیاط برتنی ضروری ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں اخلاقی اور قانونی دونوں ہی شامل ہیں۔

اگر آپ کسی کو ببانگ دہل مجرم مشہور کرنے کی راہ پر چل اٹھتے ہیں تو سوال ثبوت کی صحت پر آئے گا، اس کی کریڈبلٹی پر آئے گا۔ الزام لگانے والا چاہے جتنا بھی عمران خان مارکہ صادق و امین کیوں نہ ہو، اس کے الزام کی بنیاد ثبوت ہے۔ اگر تو آپ تکنیکی و فنی مہارت رکھتے ہیں کہ سرعام ثبوت کو اصلی اور عین اصلی ثابت کر سکیں تو بسم اللہ۔ آپ کی مہارت سے ممکن ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی مستفید ہو سکیں۔ اگر ایسا نہیں تو سب سے پہلے تو ایسی منفی تشہیر اخلاقی طور پر منفی ہے کہ ملزم پر الزام ثابت نہیں مگر اپنے تئیں آپ نے اسے سرعام منفی ضرور مشہور کر دیا۔

اس معاملے کا ممکنہ قانونی پہلو جس کے درست یا غلط ہونے پر شاید کوئی قانون دان مہر ثبت کر دے، کہ آپ جن ثبوتوں کی بنیاد پر اگلے کو مجرم قرار دے رہے ہیں کل کلاں وہ ثبوت ہی اگر دو نمبر یا غلط نکل آتے ہیں یا کم از کم ایسے نکل آتے ہیں جن سے ملزم کا مجرم ہونا ثابت نہیں ہو پاتا تو آپ بذات خود ایک عدد جرم کے مرتکب ہوئے ہیں جس پر آگے چل کر یہ طے ہوگا کہ یہ جرم آپ سے نادانستگی میں سرزرد ہوا یا اس کے پیچھے بدنیتی موجود تھی۔

اور بدنیتی یا دیانت داری کے تعین میں یہ بات اہم ہوگی کہ آپ ماضی میں مبینہ ملزم پر کیا، کتنے اور کس قماش کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ اگر تو آپ ماضی میں بھی کسی پر مختلف نوعیت کے الزامات لگاتے آئے ہیں اور اس بار ایک نئے الزام کے ساتھ مبینہ ثبوت بھی لے آئے جو بعد ازاں ناکافی یا غلط ثابت ہوئے تو یہاں آپ کی نیت پر بہرحال جائز سوال ضرور اٹھتے ہیں۔

یہ تو ہوگیا سوشل میڈیا پر دشنام طرازی کا ایک پہلو۔ اب ایک اور زاویے سے ایسے معاملات کو دیکھتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کسی بھی قضیے کی صورت میں دو طرح کے ردعمل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً کسی مالی غبن یا فراڈ کا معاملہ اٹھتا ہے تو ایک قسم کے لوگ تو ہمیشہ الزام لگانے والے یا ملزم کا ساتھ ہی دیں گے۔ اب ان کے سامنے ثبوت لے آئیں، عدالتی فیصلے لے آئیں یا کسی بھی قسم کی کوئی حجت، رشتہ داری اور یاری دوستی جس نے نبھانی ہے وہ تو نبھائے گا چاہے فریق اول کے ساتھ نبھائے یا فریق ثانی کے ساتھ۔

کچھ البتہ ایسے احباب بھی ہوتے ہیں جو خاموشی سے معاملات اور ان پر آنے والی پیش رفت پر گہری نگاہ رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ اپنا مؤقف اس وقت سامنے لاتے ہیں جب ان کے پاس مکمل یا تقریباً مکمل معاملات واضح کرتی انفارمیشن پہنچتی ہے۔

اور ایک آرگینک، اصلی اور جائز کیمپین تبھی شروع ہوتی ہے۔

لیکن اس کے لیے ناقابل تردید ثبوت ضروری ہوتے ہیں، جو جب تک ثابت نہیں رہتے، "مبینہ" ہی رہتے ہیں، اور جن کے اصلی ہونے کا اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے جعلی ہونے کا۔

اب ثبوت جعلی کیسے ثابت ہوتے ہیں؟

اس پر بات پھر کبھی سہی۔

فی الوقت بس اتنا ہی کہ۔۔ ثبوت، بھلے کتنے ہی "اللہ۔۔ اتنی گندی بات" یا "استغفار، اتنی گھٹیا حرکت" مارکہ کیوں نہ نظر آرہے ہوں۔۔

کبھی کبھار جعلی ثابت ہو بھی جاتے ہیں۔

Check Also

Haram e Pak Se Aik Ajzana Tehreer

By Asif Masood