Jamaliyat Aur Bad Soorti
جمالیات اور بدصورتی
سب سے پہلے تو غیر مقبول بیانیے پر بات کرنے کی معافی چاہوں گا۔ میری محدود عقل کے مطابق پچیدہ بات ہے مگر کئی روز سے دماغ میں پھنسی ہوئی تھی سو آج اپنی ایک جگری سے ڈسکس کر کے خیالات کو ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ چاہیں تو اتفاق کیجیے، چاہے تو دیوار پہ مار دیجئے، نہ میری تنخواہ پر اثر پڑنا ہے نہ آپ کی۔
دیکھیے، حسن بیشک دیکھنے والے کی طبیعت پر منحصر ہوتا ہے تاہم کہیں نہ کہیں حسن کا تعلق مروجہ روایات سے ضرور ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شدھ سفید فام معاشرے میں دیگر ریسز کی شمولیت سے پہلے پہلے سیاہ فام عورت یا مرد جمالیاتی اعتبار سے صفر ہو تاہم امکان ہے کہ سیاہ فام معاشرے میں وہی مرد یا عورت حسن کا پیمانہ مانا جائے۔ اس ضمن میں عملی مثالیں موجود ہیں تاہم اختصار مطلوب ہے لہذا تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب جب خوبصورتی کی مروجہ خصوصیات کا ذکر ہوگا، ان کے الٹ یعنی بدصورتی کا ظہور بھی خود بخود ہوتا چلا جائے گا۔ کسی کے نزدیک لمبا قد اگر حسن کی ایک KPI ہے تو اس کا زوال پست قامتی کے ذریعے ممکن ہوگا۔ گویا خوبصورتی یا حسن کا اظہار کہیں نہ کہیں بدصورتی کے تصور کا مظہر ہے، پھر اس کا اظہار بھلے ہو یا نہ ہو۔
دوسرے نکتے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر حسن کا اعتراف فطری ہے تو کسی نہ کسی شکل میں اس کے الٹ یعنی بدصورتی کا تصور بھی موجود ضرور رہتا ہے، اور یہ تصور اپنے اظہار سے قطع نظر ہر اس معاشرے میں وجود رکھتا ہے جہاں جہاں حسن کا تصور موجود ہو۔ یعنی بدصورتی کا مآخذ دراصل حسن ہے۔
خوبصورتی اور بدصورتی دونوں کا تصور ایک حقیقت ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک خوبصورتی یا بدصورتی دیکھنے پر کھل کر تبصرہ کرنا عام تھا۔ تاہم پچھلی چند دہائیوں خاص کر تازہ ترین دہائی میں اخلاقیات کو لے کر politically correct ہونے یا نہ ہونے کی ایک layer بھی وضع کر دی گئی ہے جس کے تحت سچ اگر ایک مخصوص مروجہ بیانیے کو چوٹ پہنچائے تو مردود و معتوب کہلایا جاتا ہے۔ گویا اب aesthetically مثبت وصف کو دیکھ کر تعریف کرنا جائز مانا جاتا ہے تاہم جمالیاتی اعتبار سے منفی وصف کو منفی کہنے پر عوام لٹھ لے کر کھڑی ہوجاتی ہے۔
دوسرے الفاظ میں، aesthetically یا جمالیاتی اعتبار سے خوبصورت جسم یا جسم کا حصہ دیکھ کر تعریف کرنا اتنا ہی منطقی ہے جتنا اس کا الٹ دیکھ کر کراہت کھانا۔ اگر خوبصورتی دیکھ کر تعریف کرنے پر تکلیف نہیں بنتی تو بدصورتی دیکھ کر تنقید یا تبصرہ کیوں برا سمجھا جاتا ہے؟
سردیوں میں میری دائیں آنکھ کے پپوٹے پر خشکی چھا جاتی ہے۔ باقاعدہ سفید داغ واضح ہونے لگتا ہے۔ یہ ایک عدد طبی مسئلہ ہے۔ میں یہ نشان چھپا نہیں سکتا یہ میری مجبوری ہے۔ اس کی نسبت ران پر یا ناف کے نیچے کوئی پھوڑا پھنسی نکل آئے وہ بھی طبی مسئلہ ہی ہوگا لیکن اسے جان بوجھ کر نمایاں کرنے کی کوئی تک بنتی نہیں۔
حمل کے بعد عورت کے جسم پر stretch marks نامی نشانات رہ جاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بھی ایک فطری اور طبی مسئلہ ہے۔ کسی کو پسند نہیں آتے۔ مسئلہ وہی جمالیات کا، جس کے جسم پر پڑے ہوں اسے بھی پسند نہیں ہوتے۔ جو دیکھ رہا ہو اسے بھی کوئی کیوٹ نہیں لگتے۔ لیکن جیسے میری آنکھ پہ سفید دھبہ پڑا ہوتا ہے جسے کم کرنے کے لیے میں موئسچرائزر تھوپ کر چھپاتا رہتا ہوں، سٹریچ مارکس بھی عموماً چھپائے جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک خاتون کی جانب سے شائع کردہ تصویر نظر سے گزری جس میں انہوں نے فخریہ طور پر اپنے سٹریچ مارکس کی تصویر پوسٹ کی ہوئی تھی۔
کیوں؟
پتہ نہیں۔
ممکن ہے اپنی بہادری دکھا کر دوسروں کو بہادری پر اکسانے کے لیے کی ہو، ممکن ہے خواتین کو لاحق مسائل کے طور پر ایسا کیا گیا ہو، ممکن ہے خود کو ممتاز دکھانے کا معاملہ ہو، کچھ بھی ہو سکتا ہے، مثبت یا منفی نیت جو مجھے نہیں معلوم۔
سارے مقدمے کا مقصد بس اتنا تھا، کہ آنٹی، جی ہاں ہمیں سٹریچ مارکس سے ہمدردی تھی، ہے اور رہے گی۔ بوجہ حمل تو نہیں البتہ موٹاپے سے واپسی پر خود بھی اس کا سامنا کرنا پڑا لیکن یقین کیجئیے، فیس بک سکرول کرتے ہوئے سٹریچ مارکس کی تصویر دیکھنا، جمالیاتی طور پر ہرگز قابل تحسین نظارہ نہیں۔ باڈی شیمنگ موٹاپے وغیرہ کی حد تک درست ہے، جس باڈی کو شیم کیا جا رہا ہو، ایستھیٹک سینس اس کا بھی کم ہی ہوتا ہے، بس اس کا اظہار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس پر اگلے کا مبینہ طور پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
موٹاپا نہیں چھپایا جا سکتا، مانا، سٹریچ مارکس تو عام حالات میں چھپے ہی ہوتے ہیں، پھر انہیں جان کر پیش کرنا اور اس نظارے کو خوبصورت نہ ماننا اگر باڈی شیمنگ ہے تو نو ایشو، یہ الزام بھی لے لیتے ہیں اپنے سر۔
باقی ہر فرد اپنے جنگل کا مالک ہے، انڈے دے، بچے دے، سٹریچ مارکس دکھائے یا انڈین کموڈ پر ہگتی تصویر پوسٹ کرے۔ بہرحال اس حق پر تو کوئی قدغن نہیں۔ لیکن یہی حق مبصرین کو بھی حاصل ہے۔
وما علینا، الا البلاغ