Ustad Bana Nahi Jata, Mana Jata Hai
استاد بنا نہیں جاتا، مانا جاتا ہے
بالفرض آپ مجھے استاد مانو تو یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی اور میرے لئے اعزاز ہوگا۔ لیکن اگر میں خود سے ہی آپ کا استاد بن بن بیٹھوں تو یہ میرے کم ظرف ہونے کی علامت ہوگی۔ گویا استاد بنا نہیں جاتا، مانا جاتا ہے۔ خود سے مہمان بنتے نہیں، بلاوے آتے ہیں۔ چراغ جلتے نہیں، جلائے جاتے ہیں۔
سیروسیاحت اور بمبوکاٹ پر سفر تو کافی پہلے سے ہو رہے تھے۔ لیکن چھ، سات سال پہلے کی بات ہے کہ جب باقاعدہ فوٹوگرافی شروع کی اور بمبوکاٹ پر لمبی چوڑی سیاحت کا پروگرام ترتیب دینے لگا۔ سوچا کہ اس حوالے سے "یوٹیوب کے کافروں" کے ساتھ ساتھ پاکستانی ماہرین کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بس پھر کچھ "وڈے لوگوں" سے ملاقات کرنے کا سوچا۔ مگر دو چار سے ملاقات کر کے ہی شوق پورا ہوگیا۔ کیونکہ جیسا میں سوچے بیٹھا تھا، ویسا کچھ تھا ہی نہیں۔ یہاں تو ملاقات میں تبادلہ خیال کو لے کر ہی اگلے خود گرو اور دوسرے کو چیلہ بنانے بیٹھے تھے۔
ہونا کیا تھا جی، ان کے ہاں بس دو ہی موضوع تھے۔ اول، اپنے ہم عصر لوگوں کے شدید گلے اور دوسرا، خود کو استاد اور تیس مار خاں جبکہ باقیوں کو کمتر ثابت کرنا۔ مثلاً میرا سوال ہوتا کہ دیوسائی میں بائیک پر جانے کا بہترین موسم کونسا ہے؟ جواب ملتا کہ تمہیں پتہ ہے فلاں فلاں بائیکر نے آج تک دیوسائی نہیں کیا ہوا اور فلاں سے کہاں ہونا تھا، اسے تو میں نے کرایا تھا۔
اسی طرح جواب ملتا کہ شیوسر کی خوبصورت تصویر بنانے والا فلاں فوٹوگرافر تو میرا شاگرد ہے۔ اسے تو کچھ آتا ہی نہیں تھا، وہ تو میں نے سب سیکھایا۔ پتہ ہے فلاں کی فلاں تصویر کیسے بنی تھی؟ وہ تو میں وہاں شوٹ کر رہا تھا، کیمرہ میرا تھا اور ساری سیٹنگز تو میری ہی کی ہوئی تھیں، فلاں نے تو بس اپنا میموری کارڈ ڈال کر تصویر بنا لی۔ ایتھے رکھ ملنگی۔
بھاگ بلال بھاگ، یہاں سے بھاگ۔ یہاں تو اپنے تئیں ہر کوئی استاد ہے، ہیرو ہے، لیونگ لیجنڈ ہے اور بقول موٹا بھائی، یہاں تو کئی لوگ پڑے پڑے ہی سینیئر ہو چکے ہیں۔ اس نگری میں اکثریت ایک دوسرے سے متھا لگائے اور خود ساختہ استاد بنے بیٹھی تھی۔ ان کے حالات بتاتے تھے کہ تجربات کسی نے شیئر نہیں کرنے، سیکھانا انہوں نے خاک بھی نہیں، جبکہ الٹا کل کو کہنا ہے کہ وہ ایم بلال ایم، وہ منظر باز، اسے تو کچھ علم نہیں تھا، وہ تو میں نے اسے سکھایا۔
گویا اک سرسری ملاقات کو لے کر، راہ چلتے کے استاد بنتے اور "خالی خولی" احسان جتاتے پھریں گے۔ لہٰذا اس معاملے میں ان دیسیوں سے تو "بدیسی یوٹیوبر" بھلے۔ دیکھیں جی، اگر آپ نے کسی کو کچھ سیکھایا بھی ہو تو اچھی بات ہے۔ مگر گلی گلی اس کا تکبرانہ انداز میں احسان جتانا اور دوسرے کو کمتر ثابت کرتے پھرنا تو نری جہالت ہے۔ وہ کیا ہے کہ جب آپ نے جتا دیا تو اپنے احسان کی واٹ لگا دی۔ ویسے بھی علم و ہنر جتانا جاہل لوگوں کا شیوا ہے۔
بہرحال آج بھی ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں اور "میں نہیں جانتا" کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں۔ میں اپنے استادوں کے پیروں کی خاک برابر بھی نہیں۔ لیکن کوئی متکبر راہ چلتے خواہ مخواہ استاد بننے کی کوشش کرے، نہ بھئی نہ۔ احسان جتانے والوں اور ان کی استادی شاگردیوں سے میں باغی ہوں۔ لہٰذا احتیاط کرتا ہوں تاکہ ایسی کوئی نوبت نہ آئے۔
اور تو اور جب کوئی مجھے استاد کہے یا سمجھنے لگے تو صاف کہتا ہوں کہ دیکھ بھئی یہاں استادی شاگردی والا کوئی معاملہ نہیں۔ اگر آپ مجھ سے کچھ سیکھتے ہیں تو جواباً میں بھی آپ سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ گویا ہم سبھی ایک دوسرے کے استاد و شاگرد ہیں۔ بلکہ استادی شاگردی کے اس چکر کو ہی چھوڑو۔ آؤ برابری کی سطح پر تبادلہ خیال کرتے اور ایک دوسرے سے سیکھتے سیکھاتے ہیں۔ وہ سکول و کالج میں جیسے کرتے تھے، آؤ ویسے ہی "گروپ سٹڈی" کرتے ہیں۔