Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. M Bilal M
  4. Selab Kyun Aya?

Selab Kyun Aya?

سیلاب کیوں آیا؟

صدیوں سے دریا کے قریب کئی دیہات آباد تھے۔ بڑے بڑے سیلاب آئے مگر آبادیوں تک پانی کبھی نہ پہنچا۔ زیادہ سے زیادہ گاؤں کے باہر والی زمینوں میں تھوڑا بہت گھوم پھر کے اتر جاتا۔ لیکن پھر ایک دفعہ ایسا سیلاب آیا کہ وہ کئی دیہات بہا لے گیا۔ حالانکہ ماضی میں اس سے بھی بڑے بڑے ریلوں سے کچھ نہ ہوا تھا، لیکن اب کی بار سب ملیا میٹ کیونکر ہوا؟ تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ کچھ عرصہ پہلے دریا پر جو اک نیا پل بنا تھا، وہ اور اس کے بند تھوڑے ٹیڑھے بن گئے۔ جن سے پانی ٹکرا ٹکرا کر دوسری سمت زور مارتا، کٹاؤ کرتا اور دریا راستہ بدلتا رہا۔ پھر جب بڑا ریلا آیا تو زیادہ کٹاؤ ہوا اور پھر۔

پچھلے دنوں ہمارے گاؤں میں اک ہنگامی اعلان ہوا کہ پانی بہت زیادہ آ گیا ہے۔ سب لوگ "بیلچے، کسی اور گینتیاں" لے کر فوری فلاں جگہ پہنچو۔ ورنہ سارا گاؤں ڈوب جائے گا۔ یوں ہر کسی نے دوڑ لگا دی۔ ویسے پہلے تو کبھی حالات اس نہج تک نہ پہنچے تھے۔ یہ اچانک ایسا سیلاب ہمارے گاؤں میں کہاں سے آ گیا؟ دراصل کچھ عرصہ پہلے ہمارے گاؤں کے پاس ایک نئی سڑک(ہائی وے) کا منصوبہ شروع ہوا۔ کئی لوگ بہت خوش تھے کہ اس طرح ان کی زمین کی قیمت بڑھ جائے گی۔ ٹھیک ہے مگر کیا برساتی اور سیلابی پانی کے لئے راستے چھوڑا جا رہا ہے؟ نہیں! اوہ خدا کے بندو! آؤ سرکار سے بات کرتے ہیں۔

بے شک وہاں بظاہر کوئی نالہ نہیں، مگر ہم جانتے ہیں کہ فلاں فلاں زمینوں سے برساتی پانی گزرتا ہے۔ خیر سرکار کے کان پر جوں بھی نہ رینگی۔ الٹا سرکاری "ٹوپوگرافر" نے "بلڈی سویلین" کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ انجینیئر میں ہوں یا آپ۔ آپ اس ٹوپوگرافر کو ٹھیک پہچانے ہیں، اب ہر جگہ ایسے ہی لوگ بیٹھے ہیں۔۔ بہرحال سڑک بن گئی۔ اور پھر ہوئی برسات، آیا سیلاب۔ اک بند کی صورت سڑک نے پانی کو روک دیا۔ اوپر سے مزید پانی آتا گیا اور اس کی سطح بلند سے بلند تر ہونے لگی۔ پانی آبادی کی طرف بڑھنے لگا اور کئی گھروں کو متاثر کر گیا۔ لوگوں نے دھائی دینی شروع کی کہ سڑک توڑو ورنہ دیہاتوں کے دیہات ڈوب جائیں گے۔ درخواست پر درخواست کرنے کے باوجود غفلت کی نیند سوئی انتظامیہ خراٹے بھرتی رہی۔

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید گھر ڈوب رہے تھے۔ جب کوئی حل نظر نہ آیا تو لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے سڑک بند کر دی۔ تب کہیں جا کر افسران موقعہ دیکھنے آئے۔ اور وہی کہ کل درخواست مزید اوپر بھیج دیتے ہیں، جیسے ہی درخواست و بجٹ منظور ہو گا تو سڑک میں بڑے بڑے پائپ ڈال کر پانی کا راستہ بنا دیں گے۔ لوگوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس منظوری تو کیا، کل تک کا بھی وقت نہیں۔ جس رفتار سے پانی بڑھ رہا ہے، صبح تک تو ہمارے سارے گھر ڈوب جائیں گے۔

آپ سڑک توڑتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ ہم بیلچے لے آئے ہیں اور خود ابھی کے ابھی توڑ دیں گے۔ جس محکمے نے جو اکھاڑنا ہے اکھاڑ لے۔ اعلٰی افسران حالات (عوامی ڈنڈے) کی نزاکت سمجھ گئے اور بولے کہ کاغذی کاروائی بعد میں ہوتی رہے گی، آؤ سڑک توڑتے ہیں۔ اس طرح چند کلومیٹر کے اندر اندر تین جگہوں سے سڑک توڑ کر کئی دیہات زیرِ آب آنے سے بچائے گئے۔ یوں پانی یہاں سے نکل کر آگے برساتی نالے اور دریائے چناب میں جا گرا۔۔

سیلاب سے متاثرہ ہم وطنو! ربِ کریم آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔ آپ کو، آپ کے پیاروں، مال مویشی اور فصلوں کو محفوظ رکھے۔ باقی اب کے جب آفت سے نکلو تو یہ ضرور سوچنا کہ کیا ہر سال یونہی آفت جھیلنی ہے یا پھر کوئی مستقل بندوبست کرنا ہے؟ جائزہ لینا کہ آپ نے سیلابی زمین پر گھر بنائے ہیں یا سیلاب آپ کے گھر تک پہنچا ہے۔ غور کرنا کہ سالہاسال سے آپ کے علاقے میں سیلاب آ رہا ہے یا پچھلے کچھ سال سے ایسا ہو رہا ہے؟ اگر تو پچھلے کچھ عرصہ سے سیلاب آنا شروع ہوا ہے تو پھر کھوج لگاؤ کہ ایسا کیونکر ہو رہا ہے؟

کیا نالے اور دریا قدرتی طور پر کٹاؤ کر رہے ہیں یا کہیں کوئی پل اور اس کے بند غلط بنائے گئے ہیں یا کہیں پانی کے راستے میں بلند سڑک مانندِ بند کھڑی کر دی گئی ہے اور اس میں پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام نہیں؟ اگر کہیں دریائی و برساتی پانی کو لے کر کچھ غلط ہوا ہے تو اس کے ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑے کرنے پر توجہ ضرور دینا۔ ورنہ ہم ہر دوسرے تیسرے سال یونہی بہتے رہیں گے، کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے رہیں گے۔

اور ہاں! یہ بھی سوچنا کہ سیلاب کیوں آتے ہیں؟ پل اور سڑکیں بنانے یا انہیں منظور کرنے والے ہمارے "قابل انجینیئرز" بھلا کہاں سے آتے ہیں؟ ڈیمز بنانے کی مخالفت کیوں ہوتی ہے؟ اور اوپر سے دریائے جہلم پر منگلا جیسا بڑا ڈیم ہونے کے باوجود بھی 1992ء میں بھیانک سیلاب کیونکر آیا تھا؟

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad