Jis Ka Kaam, Usi Ko Saajhe
جس کا کام اسی کو ساجھے
سماجی کارکن اور مصورہ منیبہ مزاری نے ایک شو میں اپنے حادثے کی کہانی سنائی اور بتایا کہ بلوچستان کے دور دراز علاقے میں جب ان کی کار کھائی میں گری تو مقامی افراد اپنے تئیں تو مدد کرنے لگے مگر جب انہوں نے منیبہ کو کھینچ کر گاڑی سے باہر نکالنے کی کوشش کی تو ریڑھ کی ہڈی کے تین مہرے چونکہ حادثے کی وجہ سے پہلے ہی ٹوٹ چکے تھے اور شاید حرام مغز (سپائنل کارڈ) بھی متاثر ہوئی تھی، لیکن کھینچ کر گاڑی سے نکالنے سے حرام مغز مزید زخمی ہوگئی اور یوں اس کا نچلا دھڑ پیرالائز ہوگیا۔ البتہ مقامیوں کے ریسکیو کرنے کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی۔
ایک دفعہ ٹلہ جوگیاں جاتے ہوئے شدید ویرانے میں ایک دوست کا موٹرسائیکل پنکچر ہوگیا۔ ہم اپنے تئیں مدد کرنے لگے لیکن چونکہ ہم اناڑی تھے تو ٹائر کھولتے ہوئے ٹیوب کئی جگہوں سے کٹ گئی۔ پھر وہ خجل خرابی ہوئی کہ کچھ نہ پوچھیں۔ ساری رات ہم جنگلوں میں پنکچر پر پنکچر لگاتے اور جیسے تیسے کرکے صبح دینہ پہنچے۔ گویا ہمارا اناڑی پن ذلالت کا باعث بنا۔ لیکن حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ اس واقعہ سے بہت پہلے بھی اناڑی ہی تھا مگر جلکھڈ ناران کے ویرانے اور رات کے وقت بارش میں خجل خراب ہوتے گوجرانوالہ کے تین لڑکوں کو پنکچر لگا کر دیا تھا اور وہ کامیاب رہا۔ لڑکے خیر خیریت سے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔
ان واقعات کی روشنی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں کسی مشکل یا ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت نہیں تو کیا ہمیں کسی حادثے کے متاثرین کی مدد کرنی چاہیئے یا نہیں؟ اس پر میں تو ایسے سوچتا ہوں کہ اگر جلد ہی تربیت یافتہ امدادی ٹیم پہنچنے کی امید ہو تو ہمیں تیس مار خاں نہیں بننا چاہیئے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے والے فارمولہ پر عمل کرنا چاہیئے۔ البتہ ٹیم کو فوری اطلاع کرنے کی کوشش ہونی چاہیئے اور جب ٹیم پہنچ جائے اور اس کا ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہو تو وہ بٹانا چاہیئے۔ دوسری صورت میں اگر دور دور تک کہیں سے مدد کی کوئی امید نہ ہو یا اس میں زیادہ تاخیر ہو تو پھر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ہم سے فوری جو بھی ہو سکتا ہو، وہ کرنا چاہیئے۔ یوں شاید کوئی بہتری کی صورت نکل آئے۔
ان معاملات میں المیہ تو یہ ہے کہ یہاں ایک طرف اکثریت خود کو ہر کام میں ماہر سمجھتی ہے اور اکثر اوقات یہ سوچتے ہوئے ہر میدان میں کود پڑتی ہے کہ "بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق"۔۔ جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ ہمیشہ "کیلکولیٹڈ رسک" میں ہی پڑے رہ جاتے ہیں اور کسی کی مدد کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اوپر سے یہاں تربیت کا شدید فقدان ہے۔ المیے سے بھی بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے نصاب میں"مشن اِمپاسیبل" تو پڑھایا جاتا ہے مگر یہ بالکل بھی نہیں بتایا جاتا کہ کسی ہنگامی حالت میں عام شہری کو کیا کرنا چاہیئے اور اس کے فرائض کیا ہیں۔ سول ڈیفنس اور خاص طور پر سکاؤٹس کی تربیت تو غیر نصابی سرگرمیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور وہ بھی نہایت غیر پیشہ ورانہ (نان پروفیشنل) ہے۔ بلکہ بس شغل میلہ ہے۔ یہاں تو بچوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ زلزلہ آ جائے، کہیں آگ لگ جائے یا کوئی حادثہ ہو جائے تو انہیں سب سے پہلے کیا کرنا ہے۔
پچھلے دنوں بھانجوں کو دریا کنارے گھمانے لے جانے لگا تو جہاں ہم دیگر تیاریاں کر رہے تھے، وہیں میرے ان سے سوالات تھے کہ وہاں اگر مجھے یا کسی کو کچھ ہو جائے تو کیا رونے بیٹھ جاؤ گے یا کچھ کرو گے؟ اگر موبائل فون بھی کام نہ کیا تو پھر کیا کرو گے؟ مدد کے لئے کسی کو بلانے جاتے ہوئے اگر راستے میں کتے ہوئے تو ان سے کیسے نمٹو گے؟ ایسے سوالات صرف اس دن ہی نہیں بلکہ اکثر ٹریننگ سیشن رکھتا ہوں اور بچوں کو اپنے تئیں سیکھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ حتی کہ انہیں بتاتا ہوں کہ اگر کسی ہنگامی حالت میں کچھ بھی سمجھ نہ آئے تو پھر بھی کم از کم خوف زدہ (پینک) نہیں ہونا۔ بے شک یہ زندگی ہے اور اس میں خوف بھی ضروری ہے مگر خوف زدہ ہو کر یہ زندگی نہیں کٹتی۔۔
بہرحال حکومت کچھ کرے نہ کرے لیکن آپ خود تو کچھ کریں۔ کسی ہنگامی حالت سے دوسروں کو نہ سہی کم از کم اپنے آپ اور اپنے پیاروں کو نکالنے کی تھوڑی بہت تربیت تو لیں۔ حادثے میں اپنے اعصاب پر قابو رکھنا اور چھوٹی موٹی فرسٹ ایڈ کرنا تو سیکھ لیں۔۔ بات سیدھی سی ہے کہ جب زندگی کی گاڑی چلانی ہے تو پھر ٹائر تبدیل کرنا آنا چاہیئے اور گاڑی کے کام کرنے کے طریقے کا تھوڑا بہت علم تو ہونا ہی چاہیئے۔ ایک حد تک اپنی تیاری تو ہو، باقی جو رب سوہنے دی مرضی۔