Hum Azad Hain Ya Azadi Bas Aik Dhakosla Hai?
ہم آزاد ہیں یا آزادی بس اک ڈھکوسلہ ہے؟
کالج کے زمانے میں ہم نے ایک سٹیج ڈرامہ کیا جو کہ عمر شریف کے ایک ڈرامے کی نقل تھا۔ ظاہری طور پر تو مذاحیہ ڈرامہ تھا لیکن اس میں کچھ اخلاقی سبق بھی تھا۔ میں ڈرامے میں وکیل بنا ہوا تھا اور ایک مکالمے کے دوران کٹہرے میں کھڑے پروڈیوسر (ملزم) کو کہا "آپ اپنے واہیات اشتہار بنانے اور پیسے کمانے کے چکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ کے کام سے عوام کو کتنی تکلیف ہو رہی ہے"۔
آگے سے پروڈیوسر نے جواب دیا "عوام سے ہمارا کیا لینا دینا۔ ہم تو سارے اشتہار پیسے کے لئے ہی بناتے ہیں"۔۔ وکیل: "تو یوں کہیں کہ آپ جو کرتے ہیں، پیسے کے لئے کرتے ہیں، ملک و قوم سے آپ کا کوئی تعلق نہیں"۔۔ پروڈیوسر: "ملک و قوم نے ہمیں کیا دیا ہے"۔ وکیل انتہائی جذباتی ہو کر: "کیا نہیں دیا آپ کو؟ آزادی دی اس ملک نے۔ اس زمین نے آپ کو شناخت دی۔ سر اٹھا کر چلنا سیکھایا۔ آپ کے پاسپورٹ پر لکھا ہوا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان"۔۔
گو کہ وہ ایک ڈرامہ تھا لیکن تب ہماری عمر ڈراموں سے متاثر ہونے والی ہی تھی اور آزادی جیسی چیزوں کو ہم جذبات کی گہرائیوں سے ہی ناپتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جذبات کا غلبہ کچھ کم ہوا تو آزادی کو "تھوڑا آزادی" سے سوچنا شروع کیا کہ ہمیں بھلا کونسی آزادی ملی ہوئی ہے؟ کیا واقعی ہم سر اٹھا کر چلتے ہیں؟ خیر جو سمجھ آئی وہ بھی بتاتا ہوں، لیکن اس سے پہلے عرض ہے کہ کوئی بھی ملک جو اپنے باشندے کو شناخت دیتا ہے، وہ کوئی احسان تو نہیں ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی ملک پیدا ہوتے تو وہ زمین بھی آپ کو شناخت دے دیتی۔ بھلا اس میں انہونی یا احسان والی کونسی بات ہے۔ البتہ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ جو شناخت آپ کو ملی، اس کی دنیا میں قدر کتنی ہے؟
رہی بات آزادی کی تو کسی انسان کو جزوی آزادی تو ہوتی ہے مگر کُلی نہیں۔ وہ کیا ہے کہ قید، پابندیاں یا بندشیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو قدرت نے ہم پر لگا رکھی ہیں اور دوسری انسانوں کے بنائے نظام کی ہیں۔ جب ہم فطرت کا مشاہدے کرتے ہیں تو پھر چاہے جنگل میں جانور ہوں یا بستیوں میں انسان، سبھی کے سبھی بہت ساری حدود کے اندر قید ہیں۔ ہم پر فطرت کی بے شمار بندشیں ہیں۔ جیسے ہم خوف کے قیدی، موسموں کے قیدی، پیٹ کی بھوک کے قیدی اور جنسی خواہشات کے قیدی وغیرہ وغیرہ۔ ہم لاکھ کوشش کریں اور آزاد ہونا چاہیں، بے شک جنگلوں میں تنہا رہنے لگیں مگر زندگی کی خاطر پیٹ کی بھوک مٹانی ہی مٹانی ہے۔
دوسری طرف فطرت کی انہیں پابندیوں میں آسانی کے لئے جب ہزاروں سال پہلے انسان نے کام شروع کیا یا کہہ لیں کہ جب "تیرے میرے" کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت انسان تہذیب تعمیر کرنے، حکمرانی کی شکل اور طرح طرح کے نظام بنانے لگا۔ یوں فطرتی بندشوں سے آزادی ملی نہ ملی لیکن انسان نے مزید کئی قیدخانے بنا ڈالے۔ آج ہم نظریات کے قیدی، نسلی امتیاز کے قیدی، سرحدوں کے قیدی، زبانوں کے قیدی، مال و زر کے قیدی، خواہشات اور خوابوں کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں جب کوئی کہتا ہے کہ "آزادی یا آزاد ملک" تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ بھلا آزاد ملک کیا ہوتا ہے؟ اس کی تعریف کیا ہوتی ہے؟ مثلاً کسی ملک میں کیا کچھ ہو تو اسے آزاد کہیں گے؟
اگر حقیقی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ملک نام ہی قید کا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ملک کے نام پر انسان نے زمین پر لکیریں کھینچ کر خود کو سرحدوں میں قید کر لیا ہے۔ حالانکہ کائنات اور دھرتی کا اک اک کونہ ہر ہر پیدا ہونے والے کے لئے ہے۔ ذرا سوچیں کہ جس زمین کے ٹکڑے پر کوئی حکمران ہوگیا تو پھر وہ زمین آزاد بھلا کیسے ہوئی؟ وہ تو اس دیسی بدیسی حکمران کی قید میں آ گئی۔ بہرحال موجودہ معاشرتی نظاموں میں آزادی نام کی کوئی چیز ہے بھی تو وہ کسی ملک کے لیے نہیں بلکہ فرد کے لیے ہوتی ہے۔ فرد سے ہی ملت اور ریاست کا وجود ہے۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ فرد آزاد نہ ہو اور ہم ریاست کو آزاد کہتے پھریں۔ اور فرد کی آزادی کا سب سے پہلا نقطہ اس کا پریشانیوں سے آزاد ہونا ہے۔
اسی نقطے کا ایک نام ہم نے انسانی حقوق بھی رکھا ہوا ہے۔۔ مثلاً دیکھنا یہ ہے کہ ایک عام انسان کو بنیادی ضروریات زندگی کیا آسانی سے مل رہی ہیں؟ کہیں وہ اس حوالے سے خوف اور خدشات کا شکار تو نہیں؟ کیا وہ روٹی، مکان، صحت اور تعلیم وغیرہ کی فکر میں قید تو نہیں؟ کیا وہ مستقبل کی فکر سے آزاد ہے؟ کیا وہ طاقتوروں کے خوف سے آزاد ہے؟ انسانوں کی بنائی جو شناخت اسے دی گئی، کیا وہ اس شناخت کے ساتھ آزادانہ گھوم پھر سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ پھر انہیں معاملات کی بنیاد پر طے ہوگا کہ فرد کتنا آزاد ہے۔
میرے خیال میں دنیا کے کسی بھی خطے کے عام شہری کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کا وزیر اعظم نواز الدین ہے یا کوئی جارج ولیم یا کوئی رام داس۔ فرق تو اس سے پڑتا ہے کہ اُس وزیر اعظم کو بنانے میں فرد کا کردار ہے یا نہیں۔ اسے اپنا حکمران چننے کی آزادی ہے یا نہیں۔ فرد کا حکمرانی میں حصہ ہے یا نہیں۔ اس کے بعد فرق اس سے پڑتا ہے کہ حکمران طبقہ انسان اور دیگر مخلوقات کے لئے کتنا درد رکھتا ہے۔ وہ خود کیسی زندگی گزارتا ہے اور شہریوں کو پریشانیوں سے کس حد تک آزاد کراتا ہے۔
طاقتوروں سے انہیں کتنا محفوظ رکھتا ہے۔ ان کے ٹیکس کا کیسا استعمال کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ بات اتنی سی ہے کہ انسان کو جتنے حقوق ملتے جائیں گے، اس کی پریشانیاں جتنی کم ہوتی جائیں گی، وہ اتنا ہی آزاد کہلائے گا۔ پھر انہیں آزاد افراد کی ریاست کو ہم آزاد کہیں گے۔ ورنہ انسان کے حقوق، خود مختاری اور شخصی آزادی کے علاوہ آزادی کی دیگر شکلیں میری نظر میں بس "لالی پاپ" ہیں، نرے ڈھکوسلے ہیں۔۔ باقی آپ اپنا خود دیکھ لیں کہ کتنے آزاد ہیں۔