Guftagu Ka Namak Ya Mirch?
گفتگو کا نمک یا مرچ؟
کسی بندے کی بات کا معقول جواب دینے کی بجائے اس کو گالی دینا کوئی انسانی قابلیت نہیں بلکہ یہ مغلظ رویہ بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے، نفسیات کا علم ایسے لوگوں کو کرپٹ مائنڈڈ یا اینٹی سوشل قرار دیتا ہے۔
گالی دینا صرف اس بندے کیلئے کسی حد تک جائز ہے جس کو ناحق زیر کرنے کیلئے اس کا شدید جانی و مالی استحصال کیا گیا ہو یا اسے ڈس پلیس کر دیا گیا ہو، ایسا بندہ اپنی بیچارگی اور ناامیدی کے باعث اپنے حواس میں نہیں ہوتا لہذا اس کو مرفوع القلم یا اخلاقی قوانین سے مستثنیٰ سمجھنا چاہئے کیونکہ ایسے بندے کو زندہ رہنے کیلئے اپنے من کا بوجھ ہلکا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے خواہ جیسے بھی کرے۔
علاوہ ازیں، کسی بھی مرحلے پر گالی کا کوئی مقام نہیں بنتا، نہ ہی یہ آپ کو کوئی اچھا مقام دلوا سکتی ہے بلکہ ایک دو بار جھاکا کھلنے کے بعد لوگ اس چیز کو مباح سمجھنے لگ جاتے ہیں پھر وہ دن بدن مزید گراوٹ کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور بلآخر سوائے بدزبانی کے ان کی کوئی معقول پہچان باقی نہیں رہتی۔
بھارت اور پاکستان کے سوشل میڈیا پر سیاسی، مذہبی اور قوم پرست عناصر کا غالب رویہ بالکل ایک جیسا ہے، ان کو لگتا ہے گالی دیکر ہم اگلے کی تذلیل کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ خود سماجی انٹیلیکٹ کے فریم سے باہر گر رہے ہوتے ہیں۔
بھارت میں گالی کو لیجٹیمیٹ کرنے کیلئے وہاں کے روسٹرز، پوڈ کاسٹرز اور بالخصوص اسٹینڈ آپ کامیڈئینز نے بہت بڑا یوگدان دیا ہے، ان لوگوں کی بدولت اس مرض نے ینگ فیمیل پرفارمرز اور ینگ فیمیل آڈئینس میں بھی یکساں جگہ بنائی ہے۔
ان کے ایک کامیڈین، مہیپ سنگھ، نے ایک ٹاپ ریٹڈ چینل پر سورب دویدی کو انٹرویو میں یہ جواب دیا تھا کہ ہم جس صورتحال سے گزر کے آتے ہیں اس پر تف کرنے کیلئے جب تک گندی گالی نہ دیں ہمیں مزا نہیں آتا، گالی ہمارا کتھارسس ہے اس کے بغیر کامیڈی اپنا کوئی گہرا تاثر نہیں چھوڑتی۔
میرے حساب سے یہ بالکل بے جواز بلکہ عجیب بات تھی، ان کو یہاں پر روک دینا چاہئے تھا لیکن ان کے ہاں تو جیسے ریس کا ماحول بنا ہوا تھا، کونسا ایسا گندا لفظ ہے جس کے بغیر یہ کامیڈی کر لیں اور کونسا ایسا پرفارمر ہے جس کی دیدہ دلیری معقول حدود سے باہر نہ نکل چکی ہو بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ان کامیڈین کی اکثریت صرف گندی گالیوں کے استعمال سے ہی کامیاب ہوئی ہے۔
اس کے بعد ایک فلمی گرو زاوید اختر نے بھی ایک انٹرویو میں گالی کو گفتگو کا نمک قرار دیا تھا، ان کی اس بات سے بھی پرفارمرز کو کچھ نہ کچھ تقویت تو ضرور ملی ہوگی لیکن لیٹینٹ شو والی کنٹروورسی کے بعد بھارت میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس میں یہ اپنا موقف کبھی نہیں دہرا پائیں گے۔
انسان کو بیہودگی کیساتھ اپنی انفرادیت قائم کرنے یا بیہودہ ریوڑ میں شامل ہونے کی بجائے معاشرے کے غالب مزاج کو شستہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، ان لوگوں کو زرا بھی سمجھ ہوتی تو فنون لطیفہ میں گالی کیلئے گنجائش نکانے کی بجائے صاف پیرائے میں سمجھاتے کہ سماجی ڈائیلاگ اور پرفارمنگ آرٹ میں گالی کا استعمال انسان کے ذوق لطیف کو کھا جاتا ہے اور پھوہڑ مزاج و سڑک چھاپ رویئے کی آبیاری کرتا ہے۔
ادب میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ کسی ناگوار معاملے پر سخت ردعمل کیلئے آپ ایسے الفاظ استعمال کر سکتے ہیں جو گالی کے مصداق ہوں لیکن اس میں غلاظت نہ ہو جیسے گاؤدی، گھنٹال یا پھوہڑ کہہ سکتے ہیں یا بھڑوا کہنے کی بجائے دیوث جیسے الفاظ کا انتخاب کر سکتے ہیں یا پھر کسی اور معقول لفظ کو ایسے ٹوِسٹ کرکے گفتگو میں ایڈجسٹ کر سکتے ہیں جس سے زبان و بیان کے شستہ پیرائے میں کھلی غلاظت نہ آنے پائے۔
عوامی سطح پر جب اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا تو دیکھنے والوں کیلئے بھی دن بدن گنجائش بڑھتی چلی جاتی ہے جس کا نتیجہ ایک دوسرے سے بڑھ کے گالی دینے کی صورت میں ہی نکلتا ہے، اس کا مظاہرہ انڈیاز گاٹ لیٹینٹ شو میں خوب ہوا جس نے اب کہرام برپا کیا ہوا ہے۔
مہیپ سنگھ اور زاوید اختر کیلئے بہت اچھا موقع ہے کہ لیٹینٹ شو میں والدین کے جسمانی تعلق پر بیہودہ ریمارکس دینے پر بھارت میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس میں اپنے موقف کا دفاع کرکے دکھائیں مگر نہیں معاشرے کو گندگی میں جھونک کے خود اب چپ کرکے بیٹھ گئے ہیں کیونکہ اس سمے بولنا ان کا اپنا کیریئر کھا جائے گا۔
رنویر الہ آبادیہ جس نے ریمارکس دیئے اور سمے رائنا جس کا شو تھا وہ بڑے بڑے سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں، وکیلوں اور بااثر پبلک فیگرز سے دوستیوں کے باوجود بے یارو مددگار ہوئے بیٹھے ہیں کوئی ان کا دفاع کرنے کو تیار نہیں، درجنوں ایف آئی آر کٹ چکی ہیں، بھارتی سپریم کورٹ نے سؤموٹو نوٹس لے رکھا ہے اور پبلک ڈنڈے اٹھائے ڈھونڈ رہی ہے، پتلے جلائے جا رہے ہیں، ان حالات میں یوٹیوب سے کمایا ہوا پیسہ بھی خرچ ہو جائے گا اور آگے کا کیرئیر بھی ضائع ہوگیا ہے۔
بد زبانی کا انجام یہی ہوتا ہے، لوگ گالی کو سویگ سمجھ کے آگے بڑھتے جاتے ہیں، نت نئی گالیاں بڑے فخر سے استعمال کرتے ہیں اور پھر ایک دن آتا ہے کہ سماجی انٹیلیکٹ کے فریم سے ہی باہر ہو جاتے ہیں لہذا گالی کو گفتگو کا نمک نہیں مرچ سمجھنا چاہئے، یہ لگائیں گے تو کسی دن واپس آکے خود کو بھی لگے گی، بلکہ جتنی لگائی گئی ہوگی اس ٹوٹل کے برابر آکے لگے گی۔

