1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Khan/
  4. Pally Dar

Pally Dar

پلے دار

بچپن میں جس مخلوق کے ساتھ بہت وقت گزارا وہ یہی تھے۔ نام کچھ لوگوں کے لیے اجنبی ہو گا تو بتا دوں فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کا نام بچپن سے ہم پلے دار سنتے آۓ تھے۔ آئل فیکٹری گھر کے قریب تھی اور ماموں اس فیکٹری میں ٹھیکیدار، تو ان کے انڈر پوری ایک لیبر کام کرتی تھی۔ یہ لیبر کم ہمارے فیملی میمبرز زیادہ تھے۔ فیکٹری میں کام کرنے کے علاوہ ہمارے گھر کی ہر خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے۔

صبح گھر سے نکلتے ہی سب سے پہلے سامنا انہی بھائیوں سے ہوتا۔ کیونکہ گھر کے سامنے ہی مختلف کھانے، چاۓ وغیرہ کے ہوٹل تھے۔ ایک لیبر ڈیوٹی پوری کر کے آ رہی ہوتی۔ دوسری تازہ دم ہو کر جا رہی ہوتی۔ یہ بھائی لوگ مختلف بینچوں اور چارپائیوں پر ڈھیر ہو جاتے اور ناشتے کا آرڈر دے دیتے۔ رف ٹف سے حلیے، خستہ حال جوتے، بکھرے بال، لیکن مسکراتے چہرے۔ جی ہاں، ان محنتی لوگوں کو ہمیشہ مسکراتے دیکھا۔ اداس چہرہ سو میں ایک ہو گا ورنہ تقریباََ مطمئن اور خوش باش شکلوں والے لوگ تھے۔

ان سب میں بڑی دوستی ہوتی تھی۔ ایک دوسرے کے حال احوال سے باخبر رہتے۔ ماموں کی نسبت سے ہم بہن بھائیوں کا بڑا خیال رکھتے۔ چیز لینے جاتے تو کوئی مزدور بھائی اٹھ کھڑا ہوتا اور فوراََ چیز لے دیتا۔ کوئی سڑک پار کرا دیتا کوئی تندور سے روٹیاں لگوا دیتا۔ الغرض ماموں کے ساتھ ساتھ یہ ہم بھانجوں کی ڈیوٹی بھی بخوشی ادا کرتے۔ ماموں کو بھی یہ لیبر اپنے بچوں کی طرح عزیز تھی۔ ان کی تنخواہوں کا کھانے پینے کا ازحد خیال رکھتے۔

ایک بار ایسا ہوا کہ علاقے کے "چوہدری صاحب" سمجھ لیں۔ انہوں نے کسی تقریب کے سلسلے ڈھول اور شہنائی والے بلواے۔ ڈھول والے جب پہنچے تو چوہدری صاحب نے نخوت سے سر جھٹکا کہ انکا ڈھول بجانا مجھے پسند نہیں آیا انہیں واپس بھیج دیا گیا۔ یہ ڈھول والے بڑے اداس ہوۓ اور سر جھکاۓ واپس آنے لگے۔ فیکٹری کے سامنے بیٹھے چاۓ کے ہوٹل پر آ بیٹھے۔ لیبر بھی کھانے کے وقت موجود تھی۔

ڈھول والوں نے شکوہ کیا کہ یہاں کے چودھری کو ذرا بھی شرم نہیں۔ ہمیں بلا کر بدمزہ کیا۔ غریب لوگ ہیں۔ چند پیسے بن جاتے۔ ماموں نے سنا تو دل پسیج گیا۔ بولے بڑے چودھری نے آپ کی قدر نہ کی تو کیا ہوا۔ آج کے دن آپ کے چودھری ہم ہوۓ۔ اس کے بعد بڑا دلچسپ سین دیکھنے میں آیا۔ اس سڑک پر ڈھول والے کو بیچ میں کھڑا کر دیا گیا۔ ہاں بھئی بجاؤ ڈھول۔ لیبر نے گھیرا ڈال لیا اور بڑا زبردست رقص کیا۔ اہل محلہ نے جمع ہو کر ویلیں کرائیں۔ کم و بیش چالیس منٹ یہ ہلا گلا چلتا رہا۔ ڈھول والوں کی اچھی خاصی کمائی کروا کر یہ لوگ اپنی شفٹ پر کام کرنے چلے گئے۔

ہمارے خاندان میں شادیوں کی رونق یہی لوگ ہوتے تھے اور میں نے نوٹ کیا تھا کہ یہ بڑی خوشی سے روایتی جھمر میں شریک ہوتے تھے۔ انہیں اس ایکٹیویٹی میں شریک ہونے کا اتنا اشتیاق ہوتا تھا کہ بھلے مزدوری کر کے آ رہے ہوتے لیکن ڈھول کی آواز پر جھومتے جھامتے آ جاتے۔ خوب ہلا گلا کرنے کے بعد اپنے اپنے کوارٹرز میں سونے چلے جاتے۔ شادی پر بارات کے ساتھ جاتے اور ولیموں میں کھانا سرو کرتے۔

ایک ماموں کی شادی پر بارات جب دلہن کے گھر کے قریب پہنچی۔ انہوں نے اتنی دھواں دھار لڈی ڈالی کہ لوگ گھروں کی چھتوں پر چڑھ گۓ دیواروں سے لٹک گۓ، پورا علاقہ انکے نعروں سے گونج اٹھا۔ میں انکی خوشی اور دیوانگی دیکھ کر حیران ہوتی کہ پرائی شادی پر عبداللہ دیوانے بنے ہوۓ ہیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اندازہ ہوا کہ پریشانی اور مصیبت کے وقت بھی یہ لوگ پیش پیش ہوتے تھے۔ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت کوئی فیملی ممبر اگر ہسپتال پہنچتا تو آدھی لیبر وہاں بھاگی جاتی کہ بلڈ کی ضرورت ہو تو ہمارا نکال لیں۔ ایک آدھ بار تو مجھے بھی اسی لیبر میں سے کسی کا بلڈ لگ چکا ہے۔

آج بھی ماموں کے انڈر کئی لیبرز کام کرتی ہیں اور ماموں کے بہت وفادار ہیں۔ کرونا کے دنوں میں فیکٹری کچھ عرصہ بند ہوئی تو ماموں کو اپنی اس لیبر کی بہت پریشانی رہی۔ ایک ایک کے گھر سے حالات پتہ کراتے۔ جن کی سچویشن خراب ہوتی ان کے گھر راشن اپنے پلے سے بھجواتے رہے۔ ہر طرح سے انکے کام آتے رہے۔ آج یہی لیبر ماموں پر جان چھڑکتی ہے۔

ایک بہت بڑا اصول سمجھ آیا۔ اپنے ماتحتوں پر مہربان رہیں۔ ان کا خیال رکھیں۔ محبت سے پیش آئیں۔ آپ کا بزنس بہترین رن کرتا رہے گا۔

Check Also

Chand Baatein Apne Publishers Ke Baare Mein

By Ali Akbar Natiq