1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Khan/
  4. Motivational Speaker

Motivational Speaker

موٹی ویشنل سپیکر‎‎

آج کل موٹی ویشنل سپیکرز کا دور دورہ ہے۔ ہر تیسرہ بندہ سوشل میڈیا پر موٹی ویشنل سپیکر بننے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ آپ نے اکثر موٹی ویشنل سپیکرز کو سنا ہوگا۔ ہر ایک آپ کو آگے بڑھنے کا سبق دیتا ہوگا۔ کامیابی کے گر سکھاتا ہوگا اور اس تقریر کے بعد آپ کو اپنا حوصلہ بہت بلند محسوس ہوتا ہوگا اور آپ سمجھنے لگتے ہیں کہ آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ گو کہ موٹیویشنل ٹریننگ یا کاؤنسلنگ اس دور کی اہم ضرورت ہے۔ بہت اچھی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ انہیں سن کر مورال بلند ہوتا ہے۔

خوبصورت اور پر اثر لہجہ ان کے اقوال پر یقین دلانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اچھائی اور برائی کی پہچان کراتے ہیں۔ اخلاقیات، کامیابی، انسانیت، اچھائی، پر مبنی ان کے ٹاپکس بھی اچھے اچھے ہی ہوتے۔ موٹیویشنل سپیکرز نے اعلیٰ اخلاقیات اور انسانیت پر اتنے زیادہ لیکچر دیے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنا امیج کافی اونچا رکھنا پڑتا ہے۔ اگر امیج اچھا نہ بنایا تو عوام متاثر کیسے ہوگی؟ عوام کو ہر حال میں آل از ویل کی رپورٹ دینی ہوتی ہے۔ ساری زندگی کوشش رہتی کہ اپنے نجی معاملات کو عام عوام سے دور رکھا جاے۔

یہاں پر ایک پرابلم پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کا فوکس ہمیشہ بہت اچھے اور بہت برے، بڑے کامیاب اور بڑے ناکام لوگوں پر ہی رہتا ہے۔ جبکہ یہ دونوں اقلیتی طبقے ہیں۔ ایک اور طبقہ جو بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔ اور وہ ہے " گرے طبقہ" Grey peoples۔ موٹیویشنل اسپیکرز کی یہ غلطی دیکھا جاے تو آپ کی نظروں میں زیادہ اہم نہ ہو۔ لیکن یہ سنگین غلطی لوگوں کے مائنڈ سیٹ میں بہت بڑے بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ آپ گرے پیپلز کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑ رہے۔ آپ کے فالوور کے ذہن میں صرف دو قسم کے لوگوں کا خاکہ بن رہا ہے۔

یا وہ نیک ہے۔ نیک نہیں تو بد ہے۔

آپ نے درمیان والے اور میجارٹی طبقے کو سراسر اگنور کر رکھا ہے۔ آپ کبھی نہیں کہیں گے۔

"ایک شخص جو کبھی کبھار نہ چاہتے ہوے کچھ غلط کر بیٹھا ہے۔ بعد میں شرمندہ ہوا تو وہ غلط نہیں ہے۔ آپ اسے ہمیشہ کے لیے برا نہیں سمجھ سکتے۔ "

ایک شخص جو کسی مجبوری کے تحت وعدہ پورا نہ کر سکا تو وہ بد عہد نہیں ہے۔

ایک شخص کا کاروبار ڈوب گیا تو وہ ناکام نہیں ہے۔ اسے اللہ نے کسی اور فیلڈ کے لیے بنایا ہے۔

ایک شخص کی زندگی میں مسائل چل رہے تو ضروری نہیں صرف وہی ذمہ دار ہو۔ اس کے اردگرد کے ماحول کو جانے بغیر اسے ناکام نہیں کہا جا سکتا۔

ان میں جھوٹ بھی ہوگا، لڑای بھی ہوگی، بدتمیزی، بے وفائی، سب ہوگا۔

یہ دنیا ہے۔ جنت نہیں ہے آپ یعنی موٹیویشنل اسپیکرز سپر ہیومنز کا نقشہ کھینچ کر، اپنی دکان داری چلانے کے لیے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ انسان کو انسان نہیں رہنے دیا دیوتا سے ملتا جلتا خاکہ دے دیا، کہ یہ یہ خوبی ہوئی تو یہ اچھا ہے ورنہ برا سمجھو۔ درحقیقت بات پتہ ہے کیا ہے؟ یہی گرے پیپلز ہی دنیا میں سکون اور محبت کا سبب ہیں۔ نہ اچھے لیبل والے کسی کو سکون سے جینے دیتے ہیں۔ نہ مکمل برے کسی کو چین سے رہنے دیتے۔

اس دنیا کا حسن ہی ان گرے پیپلز سے ہے۔ یہ لوگ غلطیاں بھی کرتے ہیں۔ چھوٹے موٹے گناہ گار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہوتے، نادم ہوتے۔ نیک کام بھی نیک لوگوں سے زیادہ کرتے ہیں۔ عاجز رہتے ہیں۔ خود کو کسی سے برتر نہیں سمجھتے۔ انہیں یہ غرور نہیں ہوتا کہ ہم بڑے نیک اتنے فرشتے ہیں۔ لہٰذا انسان بنے رہتے ہیں۔ پتہ ہے۔ اس طبقے کے بارے آپ بھلے کچھ نہ بولیں۔ لیکن اس کائنات کے مالک نے انہیں ایک بہت بڑی موٹیویشن دے رکھی ہے۔

"تم توبہ کرتے رہو۔ معاف کرتے رہیں گے"۔

تم نادم ہو تو اللہ کو یہ ندامت پسند ہے۔

ایک موٹیویشنل اسپیکر نے بیوی کو فون کیا اور کہا:

"کسی نے میری گاڑی کا اسٹیئرنگ، بریکیں، ایکسیلیٹر، گیئر سب چوری کر لیا ہے۔ مطلب اس دنیا کو کیسے سدھارا جائے؟ ظاہر ہے میں پولیس میں رپورٹ تو لکھواؤں گا لیکن مجھے بطور ایک درمند انسان سارے پہلو پہ غور بھی کرنا ہے کہ اس رویے کے پیچھے کیا کیا محرکات ہیں۔ کیا بے روزگاری ہے یا تربیت کی کمی، ڈپریشن یا پھر کوئی نفسیاتی مسائل۔ مجھے اس پہ بات کرنا ہوگی کہ آخر لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔

مجھے اس پہ بات کرنی ہوگی کہ لوگ ایسا کرنا کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں رونما ہوتے ہیں۔ اس چوری کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک چھوٹا بچہ آ رہا ہے جس کا بچپن محرومی میں گزرا۔ جس نے شاید پہلی چوری محلے کی ایک دکان سے ٹافی چوری کرکے کی۔ اسے اس وقت کوئی ہاتھ پکڑ کر روکنے والا نہیں تھا۔ اب مجھے یہ نفسیاتی گرہیں کھولنی ہوں گی۔ لوگوں کو بتانا ہوگا کہ وہ کس طرح بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ "

بیوی نے کمال صبر اور متانت سے جواب دیا: "ہوگیا؟ بول چکے؟ اب میری بات غور سے سنو۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید تم پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ہو"۔

ایک منٹ کے لیے مکمل سناٹا چھا گیا۔ اس کے بعد موٹیویشنل اسپیکر کی انتہائی دھیمی آواز آئی:

"تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں پچھلی سیٹ پر ہی بیٹھا ہوں"۔

Check Also

Gustakhi Ki Talash Aur Hum

By Qasim Asif Jami