Main Ne To Ni Kara
میں نے تو نی کرا
پچھلی عید پر میرا بھائی لاہور سے بذریعہ ٹرین گھر آیا، ناسٹیلجیا کہہ لیں یا شوق، یہ تو اسکو پتہ اگلی کہانی اسی کی زبانی۔
میں نے ایک سیٹ بک کرائی تھی اور ساتھ ہی ایک برتھ کہ جب تھک جاونگا تو برتھ پر آرام سے سو جاونگا، اس ڈبے میں میرے علاوہ ایک لمبی چوڑی فیملی آباد تھی۔ جس میں کوھی چھ سے سات عورتیں اور لاتعداد بچے تھے۔ سب مسلسل آپس میں بول رہے تھے۔
یعنی یہ سارا ڈبا ایک ہی فیملی سے بھرا ہوا تھا۔ اور واحد اجنبی میں تھا، جو ان میں مس فٹ تھا، میں تھوڑا پریشان ہوا کہ یقینا یہ لوگ نہ خود سوئیں گے نہ سونے دیں گے۔ لیکن میں نہ جانتا تھا، اس ڈبے میں موجود فیملی میرا یہ سفر قہقہوں سے بھرپور اور یادگار بنا دے گی۔ کچھ بزرگ خواتین وقتا فوقتا کن اکھیوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں، یہ نظر نہیں ایک سکینر تھا۔
جس سے گزار کر گویا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ میں کتنا شریف ہوں۔ اور اس ڈبے میں میری موجودگی سے انہیں کوئی مسئلہ ہوتا ہے یا نہیں میں کیونکہ آفس سے چھٹی کے بعد ڈائرکٹ روانہ ہو گیا تھا تو کچھ ہی دیر میں تھکاوٹ محسوس ہونے لگی۔ تو برتھ پر سونے کے ارادے سے اٹھا، برتھ پر لیٹا تو کچھ دیر یہ ساری فیملی خاموش ہوگئی۔ لیکن عورتیں پندرہ بیس منٹ سے زیادہ کہاں چپ رہ سکتی ہیں۔
جینوئن فالٹ ہے، لہذا اب انکی ڈسکشن شروع ہوی سائڈ پر اپنی سیٹ پر بیٹھا تھا تو انکی آوازیں زیادہ کلئیر نہ تھیں نہ ہی میں نے دھیان دیا۔ لیکن اب انکے سٹائل سے اندازہ ہوگیا یہ فیملی بول تو اردو رہی ہے۔ لیکن بڑے دلچسپ انداز میں ایک زنانہ آواز، جو یقینا ان خواتین کی سربراہ تھیں۔ سب سے زیادہ بول رہی تھیں، ایک تو انکی آواز اونچی تھی اوپر سے انہی کو سیل فون تھما دیا گیا۔
ہاں۔ ہییییییلو، کیسی ہے تو، اے میں تو ٹھیییک ہوں تو بتا بھین۔
خدا جھوٹ نہ بلواے بھین میرے کونی معلوم۔
اے بھیین ہم نے تو نی کراا" ان خاتون نے ایک دم ڈبے میں موجود کسی لڑکی کو پکارا۔
اے رخشی بلال کی امی کو تو نے فون کرا؟
رخشی نامی خاتون ہڑبڑائیں۔
"اے نوج جھوٹ بولتی۔ میں نے تو نی کرا"
اب یہ نوج کیا چیز ہوتی یہ میں نہ جانتا تھا۔ لیکن دلچسپ انداز پر آئی ہنسی کو نہ روک سکا۔
ایک اور خاتون چلائیں۔
اے فرحانہ۔ پوچھ اپنی بیٹی سے، میرے کو معلوم ہے اس نے سب کرا ہے۔ اسی نے کال کری ہوگی"
فرحانہ نامی خاتون نے اس واردات سے صاف انکار کیا۔ اسی تکیہ کلام " ہم نے نی کرا"
پوچھنے والی بھڑکیں
سپھید جھوٹ نہ بول۔ مجے نہ لے خاموش بیٹھ کر"
اگلی نے انکی بات کاٹی۔
بھین یہ مجے والا پھیشن تیرے میکے میں ہوتا ہوگا۔ ہمارے میں تو نی ہوتا۔ تو کھامکھا ہر فیصلے میں کود پڑتی ہے۔ ہمارے کو تو ایسے لچھن نہیں آتے"
بزرگ نے ان کو خاموش کرایا۔
میرے کو پاگل نہ بناو تم سب۔ میں پتہ کرلونگی کس نے کری ہے کال۔ پھٹاپھٹ فون ملا دو نجیب کا"
پہلے تو سمجھ نہ آئی خاتون کیا بولیں۔ پھر پھٹا پھٹ کو ٹرانسلیٹ کیا تو میرا قہقہ آوٹ اف کنٹرول ہونے لگا۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر زبردستی روکا۔
ایسی بدمعاشیاں اور چالاکیاں ہمارے کو تو نہ آئیں بھین۔ ارے میں تو کہتی اس پھسادن سے خود پوچھ "
یہاں تک تو مجھے انکی کچھ نہ کچھ سمجھ آ رہی تھی۔ اسکے بعد خواتین نے چوتھا گئیر لگا لیا اور سب ایک ساتھ سٹارٹ ہوگئیں۔ پھر میرے پلے ککھ نہ پڑا، آگے دو گھنٹے کی طویل ڈسکشن تھی جس میں۔
میں نے تو نی کرا
ہم نے تو نی کرا
تم نے تو نی کرا؟
تو نے ہی کرا
اس نے کرا۔ اس نے کرا
کے علاوہ کچھ سمجھ نہ آیا۔ آخر تک سمجھ نہ آئی کہ کال پر ایسا کونسا وقوعہ ہوا تھا، جسے ماننے میں سب کو دشواری تھی۔
بچوں کو پڑنے والی ڈانٹ بھی بڑی مزے دار تھی۔
اے منحوس۔ منہ بند رکھ۔ بولی جا رہا کم باخت
اے تیرے ڈیرامے کب بند ہونگے؟
قسم خدا کی کھوپڑی چاٹ گیا تیرا بچہ
اے رخشی اس کو بول چپ ہوجاے۔ میرے ہاتھوں پٹے گا یہ۔
اللہ جھوٹ نہ بلواے۔ تیرا بچہ بوت کھبیث ہے۔
ہنس ہنس کر میرے پیٹ میں بل پڑ چکے تھے
بالآخر انکی بحث ختم ہوی اور کھانے کا وقت شروع ہوا۔
کھانے کی خوشبو بڑی زبردست تھی۔ نیند کی کوشش بے کار تھی۔ لہذا نیچے اترا اور جا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
ایک دم ایک بزرگ میرے سامنے آن کھڑی ہوئیں۔ انکے ہاتھ میں بریانی کی پلیٹ تھی۔ شفقت سے مسکرا کر میری طرف بڑھای۔
لے بچے کھا لے پھٹا پھٹ۔
بے ساختہ پھوٹتی ہنسی کو روکنا اتنا مشکل بھی ہوسکتا ہے۔ یہ اندازہ نہ تھا۔ شکریہ کے ساتھ بریانی لے لی۔
میرا اسٹاپ آچکا تھا۔ پھٹاپھٹ نیچے اترنے کے بعد پہلا کام دل کھول کر ہنسنے کا کیا۔