1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Khan/
  4. Judgmental

Judgmental

ججمینٹل

خطرناک لوگ وہ ہوتے ہیں جو نہ صرف فوری طور پر منفی رائے قائم کر لیتے ہیں بلکہ کافی نا پسندیدگی سے اعلانیہ اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ ہماری ایک جاننے والی خاتون ہیں۔ ہر معاملے کو منفی نکتہ نظر سے دیکھنے اور پھر واشگاف انداز میں اظہار کرنے میں ذرا نہیں چوکتیں۔ ہم ان خاتون کا سامنا کرنے سے ہمیشہ بچنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ کیونکہ مخاطب پر کوئی بھی ایسا کمپلیمینٹ دے دیتی ہیں کہ بندہ شرمندہ ہو کہ رہ جاتا ہے۔

کسی شادی کے فنکشن میں آئی ہونگی تو ایک ایک کو انفرادی طور پر سنا ڈالیں گی۔ "اے سلمیٰ کی بہو دیکھی ہے؟ گھوڑے جیسا تو منہ ہے اسکا۔ "

اب انہوں نے تو رائے دے دی جو سلمیٰ کی بہو تک آرام سے پہنچا دی گئی۔ اس سارے معاملے میں نقصان ان کا ہوا جو اس طرح کی شدید تنقید سے گزری۔ اس کا سارا فنکشن خراب الگ ہوا اور یہ احساس الگ کہ "کیا واقعی میرا منہ گھوڑے جیسا ہے اگر ہے تو آج تک مجھے کیوں نہیں لگا؟"

کسی کے کپڑوں کو لے کر اس کو کھری کھری سنا دی "نسرین بڈھی گھوڑی لال لگام ہے۔ "

اب نسرین چار بندوں کے درمیاں اپنی ذات پر اس قسم کے بیان پر جتنا مرضی اگنور کرے بھلے ہنس بھی دے۔ لیکن اندر ہی اندر یہ جملہ اسکو کافی ہوتا ہے۔

کسی کا یوں دل جلائیں گی کہ "ہاے ری ماجدہ بیٹی کے ساتھ کیا دشمنی تھی کہ اس موت کے فرشتے سے بیاہ دی۔ پریوں جیسی بیٹی تھی اس جن کو دیتے کلیجہ نہ کانپا تیرا؟"

اب ماجدہ بی بی تو سخت شرمندہ ہونگی ہی لیکن اصل نقصان یہاں بھی اس بیٹی کا ہوگا جو ان الفاظ کا اثر نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کر بیٹھے گی۔ واپسی پر شوہر کو مشکوک نظروں سے دیکھ کر سوچتی جائے گی "کیا موت کا فرشتہ واقعی ایسا ہوتا ہے؟ اگر یہ جن ہے اور میں پری تب تو ظلم ہوا میرے ساتھ۔ کوئی زیادہ جذباتی ہو جائے تو شوہر کو بھی رو کر جتا دے گی کہ "مجھے تو آج آپ نے بے عزت کروا دیا۔ "

کسی لڑکی یا لڑکے کو ضروری کال آ جائے جو سننا مجبوری ہو تو ان کو بھی سنا دیں گی کہ "کس کی کال تھی جو چھپ کر سنی؟"

کوئی موٹا ہے تو دھڑلے سے اس کو ٹارگٹ بنا لیا "ہائے ہائے کتنی موٹی بے ڈھنگی ہوگئی ہو رکشہ بن گئی ہو۔ "

کوئی پتلا ہے تو اسکو بھی اسی طرح کے القابات کہ سوکھی سڑی ہو۔ کس سے جلتی ہو جو جل جل کر خاک ہوگئی ہو؟ وغیرہ۔

ایک مرتبہ میں بدقسمتی سے کسی تقریب میں ان کے ہتھے چڑھ گئی۔ مجھ سے ملنے کے بعد میرے بچوں کا بغور مشاہدہ کرنے لگیں۔ مجھے کھٹک گیا کہ رل گئی اب پتہ نہیں انھوں نے کیا شگوفہ چھوڑنا ہے۔

کچھ دیر بعد انہوں نے گولہ باری کا آغاز کیا۔ " یہ دونوں تمہارے بچے ہیں؟"

میں نے مرے مرے انداز میں جواب دیا "جی میرے ہی ہیں۔ "

مجھے اندازہ ہو چکا تھا اب میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ میں اب ان کی عدالت کے کٹہرے میں داخل ہو چکی تھی۔

انھوں نے اگلا سوال کیا "ان کی شکلیں کیوں ملتی ہیں آپس میں؟"

میں نے حیرت سے انکو دیکھا "جی بہن بھائی ہیں اس لیے۔ "

ان کا اگلا وار "اچھا۔ پر میرے بچوں کی تو نہیں ملتی شکلیں تمہارے بچوں کی کیوں ملتی ہیں؟"

ان کے اس غیر منطقی سوال پر غصہ تو بہت آیا لیکن ضبط کرتے ہوئے تحمل سے گویا ہوئی "آنٹی اللہ کی مرضی ہے ہم کیا کر سکتے ہیں شکلوں، صورتوں کو بنانے پر ہم قادر نہیں ہیں۔ " ان کو میں نے انڈائرکٹلی خدا خوفی کا احساس دلانا چاہا۔

لیکن اثر نہ ہوا اب انہوں نے پھر سے اٹیک کیا "تمہارے بچوں کی شکل تم سے کیوں نہیں ملتی باپ سے کیوں ملتی ہے؟" اب میرا صبر جواب دے گیا اور ان کو ناگواری سے دیکھا "اب اگر ان کی شکلیں باپ سے ملتی ہیں تو اس جرم میں انکو پھانسی لگا دوں؟

کمرہ قہقہوں سے گونج اٹھا اور ان محترمہ نے میرا رویہ دیکھ کر چپ ہو جانا بہتر سمجھا۔

مرد حضرات اگرچہ عورتوں کے مقابلے میں کم جج مینٹل ہوتے ہیں۔ نہ ہی فوراََ رائے قائم کر لیتے ہیں لیکن کافی مرد بھی اس عادت میں ملوث ہوتے ہیں۔ برملا رائے دینے سے یہ حضرات نہیں چوکتے۔ کسی کو اچھی حالت میں دیکھ لیا تو بول اٹھے "ہاں جی حرام تو نہیں منہ کو لگ گیا جو یوں ترقیاں کر رہے ہو؟"

کسی کو بیوی کے ساتھ خوش دیکھ لیا تو "بھئی یہ بڑا رن مرید ہے ناک کٹوا دی ہے مردوں کی۔ "

کسی کا اچھا اخلاق دیکھا تو اس کو "خوشامدی چمچا" قرار دیا اور کسی کو ایٹی ٹیوڈ میں دیکھا تو اسکو بدمزاج اور سڑیل قرار دے دیا۔

اصولََ ہونا تو یہ چاہیے کہ جہاں یہ منفی رائے فٹ سے دے دیتے ہیں وہیں ان کو مثبت رائے کا اظہار کرنے میں بھی موت نہیں لاحق ہونی چاہیے۔ راے کا اظہار کرنا ہی ہے تو منفی ہی کیوں؟ مثبت رائے دینے میں کیا قباحت ہے؟ ہمیں مجموعی طور پر ایسی تربیت کی ضرورت ہے جو ہمارے منفی طور پر سوچنے کے عمل کو ختم کر سکے۔ ایسا ہی ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔

ایک دن گھر واپسی پر ابو کی گاڑی خراب ہوگئی۔ ورکشاپ پر دے کر ایک بس پر سوار ہو گئے۔ اس بس میں کوئی دو تین عورتیں اور باقی سارے مرد تھے۔ ایک لڑکی جس کے ساتھ اور کوئی نہ تھا دروازے والی سیٹ کے ساتھ بیٹھی تھی اور تقریباََ سب مردوں کی دلچسپی کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ اب ایک جگہ بس رکوائی لڑکی نے باہر کوئی موٹر سائیکل پر اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔ وہ اتر کر اس لڑکے کے ساتھ چلی گئی۔

پیچھے سے مرد آپس میں یوں باتیں کرنے لگے "ضرور اس کا چاہنے والا ہوگا۔ "

دوسرا بولا "ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اولاد یہ کچھ کرتی ہے۔ "

تیسری آواز "بس جی قیامت آ جائے اب تو۔ "

ابو سے برداشت نہ ہوا ناگواری سے ان لوگوں کو ڈپٹ دیا "شرم آنی چاہیے تم لوگوں کو۔ ایسا کیا دیکھ لیا ہے جو یوں زبان چلا رہے ہو؟ اس کا بھائی بھی ہو سکتا ہے یا شوہر بھی۔ یہ کیوں نہیں سوچتے آپ سب؟"

بس میں خاموشی چھا گئی پھر کوئی آواز نہ آئی۔

تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں خود اس چیز کو روکنا ہوگا۔ جہاں نیگیٹو ججمنٹ ہو وہاں انجواے کرنے کی بجائے ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنی ناگواری کا اظہار کریں تاکہ اگلوں کو شرمندگی محسوس ہو اور اگلی بار وہ ذرا محتاط ہوں۔

اس کالم کو پڑھنے کے بعد تقریباََ لوگوں کا مؤقف ہوگا کہ بھئی یہ تو غلط بات ہے ہم تو ذرا بھی ججمینٹل نہیں ہیں۔ تو کہنے کو سب کہہ دیں گے وہ بھی جو جج مینٹل ہونگیں۔ کیوں نہ اپنا ایک مخلصانہ تجزیہ کریں کہ ہم خود کتنے جج مینٹل ہیں دوسروں پر بات کرنا بہت آسان ہے لیکن خود میں یہ چیز ڈھونڈنا اوکھا کم اے۔

یہ دیکھنے کے لیے کہ میں خود کتنی جج مینٹل ہوں۔ میں نے سائیکلوجی کی ایک مشہور ویب سائٹ پر یہ ٹیسٹ دیا اور باوجود عقل مندی سے سوچ سوچ کر جواب دینے کے انھوں نے رزلٹ میں مجھے تھوڑا سا جج مینٹل شو کرا دیا ہے۔ اب ماننے کے علاوہ کوئی چارہ تو نہ تھا لیکن یہ بھی سوچ رہی ہوں"ہونہہ یہ لوگ پاکستانیوں سے جلتے ہیں بس انکو تو ہماری ساری قوم جذباتی اور ججمینٹل لگتی ہے۔ "

Check Also

Aisi Bulandi, Aisi Pasti

By Prof. Riffat Mazhar