Marka e Badar Aur Aaj Ka Musalman
معرکہ بدر اور آج کا مسلمان
بدر کی خاک پر سر رکھ کے شاہ دوسرا بولے
الہی آبرو رکھنا محمد مصطفٰے بولے
میں اپنے ساتھ جو چھوٹا سا لشکر لے کے آیا ہوں
تیری توحید کا ہے پاسباں خیر الوری بولے
یہی ہے مختصر سا کارواں راہ حقیقت کا
بہا کر اشک سجدہ میں یہ محبوب خدا بولے
جنگ بدر اسلامی تاریخ میں مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے جس کی شعاعوں میں آج چودہ سو سال بعد بھی ملک و ملت کی بقا اور استحکام کے لئے صف آرا ہونے کے طریقوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ یہ معرکہ اپنے حیران کن نتائج کے اعتبار سے تاریخ میں اپنی مثال آپ تھا۔ اس نے یہ ثابت کردیا کہ جزیرہ نمائے عرب کے اندر قریش کے محبوب نظام جاہلیت اور حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے پیش کردہ نظام اسلام میں سے کس کو زندہ رکھنے کا حق حاصل ہے؟ یہ غزوہ اہل عالم کے لئے اپنے اندر تین اہم اسباق رکھتا ہے۔
اول یہ کہ اس معرکۂ کارزار میں مسلمانوں اور کفار کا طرز عمل بالکل مختلف تھا۔ کفار کے لشکر میں شراب کے دور چل رہے تھے۔ ناچنے گانے والی لونڈیاں اپنے فن کا مظاہرہ کررہی تھیں۔ مال و زر اور افرادی قوت کی برتری پر فخر و غرور تھا۔ جبکہ لشکر اسلام میں انتہا درجے کا اخلاقی نظم و ضبط تھا۔ نعرۂ تکبیر کی صدائیں تھیں۔ اللہ تعالٰی کے حضور دعائیں تھیں، التجائیں تھیں۔ ہر دیکھنے والی نگاہ پہچان سکتی تھی کہ فریقین میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑرہا تھا۔
چدوم یہ کہ مسلمان تعداد کی کمی اور بے سروسامانی کے باوجود اپنے سے تین گنا طاقتور اور جنگی ساز و سامان سے لیس دشمن پر غالب آئے۔ اس طرح تائید و نصرتِ خداوندی پر ان کا یقین پختہ ہوگیا اور کفار کے خلاف ان کے حوصلے بلند ہوئے۔
تیسرا سبق یہ تھا کہ جو لوگ خدائے واحد کی غالب طاقت سے بےخبر اپنی عددی برتری، اپنے مادی وسائل اور جنگی ساز و سامان کی کثرت کے بھروسہ پر فتح کے نشے میں سرشار تھے ان کے لئے یہ فیصلہ کن معرکہ عبرت ناک تازیانہ تھا کہ توحید و رسالت کے پروانوں کی مختصر جماعت خواہ وہ مدینہ کے کسانوں اور غریب الوطن مہاجرین پر مشتمل ہو، کفار کی کثیر جماعت کو شکست سے دوچار کر سکتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کے مسلمان کے لئے بھی اس معرکۂ حق و باطل کے نتیجے میں کوئی سبق ہے؟
جی ہاں ضرور ہے
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
آج امت مسلمہ کفار سے خوفزدہ کیوں ہے؟ وہ ہمیں پتھر کے دور میں دھکیل دینے کی دھمکیاں کیوں دیتے ہیں؟ ہم ان کے ناجائز مطالبات ماننے پر کیوں مجبور ہیں؟ ہم ان سے سود پہ قرض کیوں لیتے ہیں؟ ہم ان کی شان و شوکت سے مرعوب کیوں ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب ایک ہی ہے کہ ہم اس جذبہ ایمانی سے محروم ہیں جو فاتحین بدر کا امتیازی نشان تھا۔ اطاعت خدا و رسول صل الله عليه وسلم میں ان سے بہت پیچھے ہیں۔ ان کا شیوہ تھا سَمِعُنَا وَاَطَعُنَا۔ ہم میں سے اکثر قرآن و حدیث کو سننا ہی نہیں چاہتے تو عمل کی نوبت کیسے آئے؟ ان پاکیزہ ہستیوں کا اخلاق و کردار دنیا میں اسلام کی تشہیر کا باعث ہوا۔ آج ہم فخر سے کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں۔ لیکن ہمارا خلق کسی غیر مسلم کو متاثر نہیں کرتا بلکہ مجموعی طور پر غیر مسلموں پر ہمارا تاثر اچھا نہیں۔ دنیائے اسلام میں کوئی ایسا ملک موجود نہیں جہاں نظام اسلام قائم ہو۔ عالم اسلام میں اتحاد مفقود ہے۔ پھر کفر ہم سے کیونکر خوفزدہ ہوگا؟ وہ تو فرمان الٰہی کے مطابق مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔ آج اگر ہم اپنی کھوئی ہوئی ساخت بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالٰی کے اس فرمان
"اے ایمان والو! تم یہود و نصارٰی کو دوست نہ بناؤ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں"۔ سورة المائدہ۔ آیت نمبر 51
کو پیش نظر رکھنا ہے، سچے اور کھرے مسلمان بننا ہے، اپنے مسائل کو اپنے وسائل کے ذریعے حل کرنا ہے۔ یاد رکھئے کوئی امریکی بحری بیڑہ ہماری مدد کو آنے والا نہیں۔ وہ راستے میں ہی گم ہو جایا کرتا ہے۔ دنیا میں کوئی سپر پاور نہیں۔ اسی قَوِیٌّ عَزِیُزٌ کا مضبوط سہارا تھام لیں۔ اسی پر توکل کریں۔ یہ کافر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ دور کیوں جائیں ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ہمارے فوجی جوانوں نے خدائے واحد کی طرف سے غیبی امداد کے کئی واقعات بیان کئے تھے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس وقت تک پاکستانی قوم میں جذبہ ایمانی اور جرأت و بہادری موجود تھی۔ اگر آج بھی امت مسلمہ متحد ہو جائے اور حبِ دنیا ترک کرکے حبَ الٰہی کو سینوں میں بسالے تو دنیاوی شان و شوکت بھی حاصل کرے اور اخروی نجات بھی اس کا مقدر ہو۔
زندگی کو آئین قرآن کا حامل کیجئے
بازوئے ایمان سے نابود باطل کیجئے
نفس امارہ کو پابند سلاسل کیجئے
مقصد ہستی ہے جو پھر اس کو حاصل کیجئے