Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khurram Masood
  4. Tsunami Ki Badnami

Tsunami Ki Badnami

سونامی کی بدنامی

الیکشن 2018 سیاسی گہما گہمی عروج پر تھی سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر بھرپور سیاسی حملے جاری رکھے ہوے تھے۔ ہر سیاسی پارٹی کے ورکرز اپنے لیڈر کی تقریر سن کر مخالف لیڈرز کو آڑے ہاتھوں لیتا، ہر پارٹی کو یقین تھا، کے انہی کا لیڈر میدان مار لیگا پر ایک ایسی پارٹی بھی تھی۔ جس کا ایک ایک نعرہ ایسے مقبول ہو رہا تھا۔ جیسے اپنے وقت میں نصیبو لال کے گانے فوراً مقبول ہو جاتے تھے۔

پاکستان میں ایک جادوئی شخصیت عمران خان مسیحا، مرد آہن، تصدیق شدہ دیانت دار، امانت دار، ہینڈ سم، سونامی لیکر پاکستان کی سیاست میں بھر پور طریقے سے داخل ہو چکا ہوا تھا اور حقیقت بھی کچھ یہی تھی کے ہر طرف پی ٹی آئی کا شور و غل تھا۔ لوگ اس قدر جنون میں تھے، لگتا تھا، لوگ تحریک انصاف کے نام کی تسبیح پڑھ رہے ہیں اور نوجوان ایسے متحرک تھے۔

اور سینے پر تحریک انصاف کے نظریہ کی خاطر سینے پر ایسے گولی کھانا چاہتے تھے۔ جیسے کسی ملک کا فوجی دشمن سے لڑتے ہوے سینے پر گولی کھانا چاہتا ہے۔ ٹائیگرز ایسے پر جوش تھے، جیسے مغرب اور یورپ والے اپنی سی ویز لیکر ایئر پورٹ پر پہچنے والے ہیں اور مراد سعید ان گوروں کا انٹرویو لینے کیلئے با نفس نفیس خود ایئر پورٹ پر موجود ہے اور بہت سے گوروں کو ائیر پورٹ سے اس لئیے واپس کر دینا ہے کے وہ قابلیت میں۔

ان کے معیار پر پورے نہیں اترتے اور آئی ایم ایف کے پیسے تو منہ پر مارنے کیلیے تحریک انصاف کی خوفیہ تجوری میں فارن فنڈنگ سے موصول ہوئے پہلے ہی پڑے تھے۔ پٹرول تو اسد عمر صاحب نے اتنا سستا کرنے والے تھے کہ لوگ چالیس روپے لیٹر پیٹرول پر ہیلی کارپٹر میں سفر کرنے کیلئے بےتاب تھے اور سعودی عرب، رشیہ اور عرب ممالک کے فایننس مینسٹر کنٹریکٹ ہاتھوں میں لیے اسد عمر صاحب کی منت سماجت کر رہے تھے۔

کہ ہمیں بھی اپنے قیمتی لمحوں میں سے لمحہ بخشیں۔ ہر طرف نوجوانوں کا سونامی تھا، گلی محلہ تحریک انصاف کے جھنڈوں سے بھرا پڑا تھا۔ آخر کار مرد آہن عمران خان وزیراعظم بن گئے اور ہر طرف ایمان داری اور دیانت داری کا بول بالا ہو گیا۔ دودھ اور شہد کی نہرں بہہ نکلیں۔ پھر دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا کہ سادہ لوح وزیراعظم کنالوں پر محیط بنی گالا کےمحل سے سائیکل پر اپنے دفتر کو جاتا ہے اور وہ وزیر اعظم ہاوس۔

جسے وہ یونیودسٹی کا درجہ دے چکا ہے۔ گھنٹوں وہاں کی لائیبریری میں مطالعہ کرتا ہے، مدینہ کی ریاست کا ماڈل وجود میں آنے کے قریب ہی تھا کہ ملک میں کرپشن کا بازار اتنا گرم ہوا کہ لوگ خود ساختہ خلیفہ سے سوال پوچھنے لگے کہ کرپشن کو ختم کیا جائے، مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے پر مرد آہن کیا جواب دیتے ان کی اپنی جماعت کے لو گ کرپشن کے کیسز میں مطلوب تھے۔

مدینہ کی ریاست کا ماڈل قائم کرنے والوں کے دعوے ایک کے بعد ایک کر کے بری طرح ناکام ہوتے چلے گیے اور عوام کی زبان پر بری کار کردگی کی وجہ سے سوالات اور تنقید کی بوجھاڑ شروع ہوئی تو کسی بھی ممبر کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا دو تین سال تو یہ کہہ کر گزار دیئے گیے کہ تحریک انصاف کو کچھ وقت تو دیا جائے پر وقت گزرتا رہا اور کارکردگی زیو رو کے بجایے منفی میں جانے لگی بلآخر ناقص حکمت عملی اور انتہائی بری کارکردگی کی وجہ عوام انھیں U ٹرن خان، فتنہ خان کے نام سے جاننے لگی۔

بلآخر قوم نے تصدیق شدہ دیانت دار وزیراعظم کو آیئنی طریقے سے گھر رخصت کر دیا، بجائے اس کے یورپ کی مثالیں دینا والا وزیراعظم عوام کی فیصلے کو تسلیم کرتا امریکہ اور بیرونی سازش کا نیا پینڈورا بکس کھول دیا کہ انھیں امریکہ کے کہنے پر نکالا گیا ہے اور اس بیانیہ کو مضبوط کرنے کیلئے انتہائی بھونڈا بیانیہ اپنا یا اور ملکی اداروں کو بیرونی سازش میں شریک ہونے کے الزام لگانا شروع کر دیا۔

جب با شعور عوام نے اس بیانیہ کو مسترد کر دیا تو سونامی کی بدنامی کے برے دن شروع ہوئے ایک طرف امریکی سازش کا بیانیہ تھا، امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے اور دوسری طرف خیبر پختون خواہ کے مرد مجاہد امریکہ کو آنکھیں دکھاتے ہوے ایببسولیٹلی ناٹ کہہ کر امریکی سفیرسے یو ایس اے ایڈ کی جانب سے34 بولان سوزوکی گاڑیاں محکمہ صحت کیئلے تحفتاً قبول کرلیں اور غیرت مند آزاد وزیر صحت۔

تیمور جھگڑا نے یہ تحفہ باخوشی قبول کیا۔ اب امریکہ کی دی گئی 36گاڑیاں خیبر پختونخوا کی سڑکوں پر نمودار ہوں گی۔ اور پھر کہنا کہ ہم کوئی غلام ہیں کہ وہ جو کہیں گے ہم مانیں گے ایک سفاک حرکت ہے اور خود تحریک انصاف کے نوجوانوں کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔ تصدیق شدہ ایماندار کے سارے دعوے دھرے اور زمین بوس ہو گیے۔ جب الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا کہ صادق اور امین تو انڈیا اور اسرائیل سے بھی فنڈنگ لے چکے ہیں تو سونامی کی بدنامی اس بری طرح سے ہوئی کہ تحریک انصاف اپنی ہی سونامی کی بدنامی میں بہہ گئی۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi