Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khurram Masood/
  4. Madari Ki Hoshyari

Madari Ki Hoshyari

مداری کی ہو شیاری

ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے ریچھ اور بندر کے دلچسپ کرتب نہ دیکھے ہوں جب مداری ڈگڈگی بجا کر بندر اور ریچھ کو اپنے اشاروں پر نچواتا ہے اور عوام ناچ دیکھنے میں محو ہو جاتی ہے اور دلچسی کا عالم یہ ہوتا ہےکے بندر کی آنیاں جانیاں دیکھ کر خوب محظوظ ہوتے ہیں اور اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ بندر اور ریچھ کے دلچسپ کرتب کے پیچھے کھیل کو دلچسپ بنانے میں اصل کمال تو مداری کا ہے جو اپنی مداری پن کی ایک ڈگڈگی کی آواز سے بندر اور ریچھ کے دماغ کوایسا ٹرین کرتا ہے کے وہ مداری کے حکم کو سنےبغیر نہیں رہ سکتے۔

ایسے ہی ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کے مداری ہجوم کو متوجہ کرنے کے کبھی ایک پٹاری سامنے رکھتا ہے اور لوگوں کےدماغوں کو اپنی باتوں میں الجھا کر بتاتا ہے کے میرے پاس اس پٹاری میں ایک ایسا منقا اور گیدر سینگھی ہے جو آپ سب کی قسمت بدل سکتی ہے اور آپ کی من پسند مرادیں پوری ہو جایئنگی پھر ہوتا یہ ہے کے سادہ لوح عوام مداری کی اس بات میں الجھ کر او ر گیدر سینگھی کے حصول کیلیے مداری کی سحر انگیز باتوں میں الجھ جاتے ہیں دلچسپ یہ کے اکثر عوام یہ جانتے ہیں کے وقت کے ضیاع کے علاوہ حاصل کچھ نہیں ہونا پر یہ ہی تو مداری کی ہوشیاری ہے کے مداری لوگوں کے دماغوں کو کنٹرول کرنے کا فن جان چکا ہے۔

مداری کس طرح عوام کو اپنی چرب زبانی اور اپنے ہاتھوں کےکرتب سے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرتےہیں۔ یہاں تک کے ہجوم کو اپنے سحر میں جکڑلیتے ہیں۔ اور عوام جانتے ہوئے بھی ان کے سحر سے نہیں نکل پاتی۔ دوسرے ممالک میں بھی مداری پائے جاتے پر پاکستان کے مداری زیادہ ہوشیاری سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ مداری جان چکے ہوتے ہیں کہ ہر بار ہم انہیں اپنی چرب زبانی سے اس طرح الجھا ئیں گے کہ وہ ہماری بات سنے بغیر نہیں رہ سکے گیں۔

اسی تناظر میں اگر ہم مداری کی ہوشیاری اور پاکستانی سیاست دانوں کی ہوشیاری کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ ایسا ہی حال یہاں پاکستانی سیاست میں بھی ہوتا آرہاہے۔ چیدہ سیاست دانوں کے علاوہ اکثر سیاستدانوں کی ہاتھ میں ڈگڈگی کے بجائے مایئک ہوتا ہے اور وہ اپنی چرب زبانی سے عوام کو پٹاری میں بند منقا اور گیدڑ سینگھی کے فوائد بتاتے رہتے ہیں جب سے پاکستان بنا ہے ہر سیاسی لیڈر نے عوام سے یہ ہی کہا کے اس کے پاس اسکی پٹاری میں جو وہ منقا ہے وہ اس خصوصیت کا حامل ہے جو کسی دوسرے مداری کی پٹاری میں نہی کہ جب وہ منقا پٹاری سے باہر نکال کر عوام کے مسائل پر رکھے تو اسکا منقا عوام کے سارے مسائل چوس لے گا او ر معاشرے میں پھیلے زہر کا تدارک ہو جائگا اور ان کے تمام مسائل منٹوں میں حل کر دے گا پر نہ تو کوئی ایسا منقا پٹاری سے نکلا نہ ہی کوئی لیڈر آج تک پاکستانی عوام کو ملا جو ان کے مسائل کو حقیقی معنوں میں حل کر دیتا پر عوام آخری مراحل تک پٹاری پر نظریں جمائے رکھتے ہیں کےشاید گیدر سینگھی باہر آ جائے اور ان کی قسمت بدل جائے پر بجائے اس کےسیاسی فنکار وں کی پٹاری سے عوام کی فلاح کیلئے کچھ نکلتا سوائے انکا وقت ضائع ہو جانے جانے کے علاہ کچھ نا ملتا پاکستان کی اس سیاسی تاریخ میں سیاست دانوں نے بہت سے سیاسی نعرے لگوائے جو وقتی طور پر بہت مقبول ہوے۔

پاکستانی سیاست کے اس دور میں جو سب سے زیادہ سیاسی اور منفرد لفظ سنا گیا وہ u ٹرن ہے اس لفظ نے ملکی سیاست کا رخ بدل دیا وعدہ خلافی کرنا اور اس پر شرمندہ نہ ہونا نہائت آسان کر دیا اب کوئی بھی سیاستدان آسانی سے وعدہ خلافی کو u ٹرن کا نام دے دیتا ہے اور بجائے شرمندہ ہونے کے اسے سیاسی حکمت عملی کا نام دیتا ہے۔

اگر بات کی جائے تو تحریک انصاف کی سیاسی پٹاری میں کسی سیانے نےکئیں ایسے نعرے بھر دیے جس سے ان کے سیاسی مداری کرتبوں میں لوگوں نے انتہائی دلچسپی لینا شروع کر دی یہاں تک کے بین الاقوامی سطح پر ان کے سیاسی کرتب دیکھے اور سنے جانے لگے عمران خان کی سیاسی پٹاری میں جو نعرے تھےوہ بہت دلچسپ اور منفرد تھے۔

جن کا آغاز انہوں نے یہ کہہ کر شروع کیا کہ انہوں نے انتھک محنت کی ہے اور اسکا آغاز انہوں تبدیلی اور سونامی کے نعرے سے شروع کیا اور ایک عرصہ تک قوم کے نوجوانوں کو مدینہ کی ریاست کا خواب دیکھا کر جلسوں میں کثیر تعداد میں جمع کر کے انھیں موسیقی کی دھنوں پر نچوایا گیا اور جب تنقید کی زر میں آۓ تو پٹاری سے جلد ہی "چور چور اور کرپشن کا چورن نکالا" اور نعرہ لگوا کر عوام کو مزید الجھا دیا اور اس نعرے کو سیاسی شعدہ بازی سے بہت شہرت ملی یہاں تک کے پاکستان کی گلیوں میں بچوں نے بھی چور چور کے نعرے لگاۓ پر جب عوام نے عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد سوال اٹھایا کہ چوروں اور کرپٹ لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاۓ تو بجاۓ اس کے کہ عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جاتا کے ان کی تو اپنی پٹاری چوروں سے بھری ہوئی ہےپر جب کچھ بن نہ سکا تو ایک نیا ٹچ پٹاری سے باہر نکالا اورریا ست مدینہ کا نعرہ لگا ایک بڑی تعداد عوام کے اس نعرےکو سہرانے لگی اور عمران خان کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے لگی عوام پر یہ جادو بھی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ کیونکہ سیاسی پٹاری میں وہ لوگ جنہوں نے مدینہ ماڈل کی ریاست بنانے کا دعوی کیا تھا وہ خود ایک کرتب دیکھانے والے مداری کی پٹاری سے نکلے ہوئے تھے۔

عمران خان کی سیاسی پٹاری سے نکلے ہوئے سب نعرے ایک کے بعد ایک کر کے بری طرح پٹ رہے ہیں۔ اب تو عالم یہ ہے کہ انہوں نے سب سے سستا نعرہ اپنی پٹاری سے نکال کر عوام میں لائے ہیں جو نعرہ بہت آسانی سے عوام کے دل میں اترتا ہے امریکہ مخالف اور بیرونی سازش کا نعرہ کامیاب تو ہواپر ساتھ ہی بیرونی سازش کے بیانیہ کی ہوا نکل گئی جب سیکورٹی اداروں نے رپورٹ کی روشنی میں اس بیانیہ کی تردید کر دی اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں واضح کہا گیا کہ عمران خان کے بیانیے میں بیرونی مداخلت کے شواہد نہیں ملے۔

اب جبکہ ضمنی الیکشن میں واضح برتری حاصل کر چکے ہیں تو انھیں اپنی تنقیدی سیاسی حکمت عملی کو بدل دینا چاہیے اور دنیا میں بدلتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی حالات کو ترجیح دیتے ہوئے عمران خان کو اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کر کے اور ملک کی خاطر اپنی انا اور اقتدار کی حوس کو پش پست ڈال کر کو رسیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیئے نہ کہ ہر بار لانگ مارچ کی سیاست کے بجائے عوام کی مشکلات میں کمی کے اقدامات کریں پہلے ہی لانگ مارچ کے نتیجے میں کئی قیمتی جانوں کا ضیائع ہو چکا ہے اور ملکی املاک کو انتہائی نقصان پہنچا ہے۔

عمران خان کو اس بات کا ادراک ہو جانا چاہیئے اور ذہنی الجھن سے باہر آ جانا چاہیئے اور یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ وہ اپنی حکومت صرف اپنی ناقص حکمت عملی اور نا اہل ٹیم کے بدولت کھو چکے ہیں اور ان کی حکومت ایک آیئنی طریقہ کار سے گھر گئی جو آئین میں درج ہے۔

عمران خان کو اپنی سیاسی پٹاری بند کر کے حقیقی معنوں میں ملک و قوم کی ترقی کے لئے قومی مفاد میں بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چایئےاور ملک کے باوقار اداروں کے خلاف سوشل میڈیا کیمپین سے بعض رہنا چاہیے یہی انکی سیاسی بقا کیلئے ضروری ہے اور ملک کے مفاد میں بہتر ہے۔

Check Also

Yasmin Rashid Is Haal Mein Kyun Hai?

By Najam Wali Khan