Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khurram Masood/
  4. Aqliaton Ka Azadi Ka Junoon

Aqliaton Ka Azadi Ka Junoon

اقلیتوں کا آزادی کا جنون

جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی، انہیں تاریخ اچھے الفاظ میں یا د نہیں رکھتی، بلکہ انکا نام و نشان ہی باقی نہیں رہتا، جنگل کا قانون وحشیوں کی بے رحمی اقلیتوں کی نسل کشی کی آر ایس ایس کی خوفناک زہنیت بھارت کی سر زمین پر حکومت کی سپرستی میں کھلے عام اقلیتوں سے جنگل کے وحشیوں جیسا سلوک صرف ایسا بھارت میں ہوتا ہے۔

بھارتی سر زمین اقلیتوں کے خون سے رنگی ہویئ ہے۔ انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ننگی لہراتی تلواروں سے معصوم اقلیتوں کا وحشیانہ طریقے سے قتل عام اقلیتوں کی نسل کشی کے اقدام ہیں، ظلم جتنا بڑھتا جاتا ہے، انصاف اپنا رستہ بنا لیتا ہے۔ بھارت میں حقوق کی پامالی صرف مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں، پورا بھارت ہی مذہبی، لسانی اور معاشرتی تعصبات اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔

عام طور سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ بس بھارت سے آزادی کی تحریک صرف کشمیر میں چل رہی ہے۔ مگر یہ خیال درست نہیں۔ کشمیر کے علاوہ خالصتان، تامل ناؤ، آسام، ناگالینڈ، تری پورہ، منی پور، شمالی مشرقی بھارت سمیت کئی ریاستوں میں بھی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ان تنظیموں کی خاموش حمایت کرتے ہیں اور ماحول کو زیادہ خراب کرنے کے لیے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والی زبان استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کے متعصب رویے اور عدالت سے بھی جلد انصاف نہ ملنے کی وجہ سے اقلیتی برادری کے لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو بڑھتے ظلم و ستم، تشدد اور اشتعال انگیز تقاریر کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

عیسائیوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ کو عیسائی کمیونٹی اس کے لیے ہندو جماعتوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے جنھیں بی جے پی حکومت اور پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ 1970 میں بھارتی پنجاب میں سکھوں نے اکالی دل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، جس کا مقصد سکھوں کے حقوق کی پاس داری تھا۔ تنظیم کے تحت وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملک میں سکھوں کے ساتھ روا رکھے گئے۔

ناروا سلوک کو ختم کرے اور انھیں تمام شعبوں میں ہندو اکثریت کے مساوی حقوق دیے جائیں، تاہم بھارت کی اس عرصے میں بننے والی کسی بھی حکومت نے سکھوں کے ان جائز مطالبات پر کان نہیں دھرا اور نسلی و مذہبی تعصب کی بنا پر امتیازی سلوک اور زیادتیاں جاری رکھیں۔ سکھوں نے ہندو حکمرانوں کے رویے سے مایوس مگر حکومت کی جانب سے اس مطالبے کے جواب میں قیادت اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کر دی۔

ان پر اور ان کے حامیوں اور ہم دردوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تو سکھوں نے 1980 میں باقاعدہ مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا، بھارتی حکومت نے سکھوں کی اس تحریک کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ سکھوں کی آبادیوں پر باقاعدہ فوج کشی کروائی گئی۔ خالصتان تحریک کے رہنماؤں کے گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے گئے، انھیں پابند سلاسل کیا گیا، ان کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

لیکن وہ تحریک کا زور نہیں توڑ سکی، آخر کار 1984 میں بھارتی فوج نے امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر باقاعدہ حملہ کر دیا، سکھوں کے اس مقدس مقام کی حرمت جوتوں تلے روند ڈالی گئی۔ تامل ناؤ میں کانگریس کی صوبائی حکومت نے مدراس کے اسکولوں میں جہاں تامل زبان بولنے والوں کی اکثریت تھی، ہندی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔ تامل ہندو مذہب ہی کے ماننے والے ہیں۔

مگر انھوں نے ہندی زبان کا تسلط قبول نہیں کیا اور اپنے بچوں کو ہندی پڑھانے سے انکار کر دیا۔ ریاست کی جانب سے اصرار کیا گیا، تو انھوں نے اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ ہندی بولنے والے حکمرانوں کے اس اقدام کا مقصد تامل بولنے والوں کو اپنا تابع بنانا ہے اور بڑی حد تک یہ بات درست بھی تھی۔ اور پھر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد 1950 کی دہائی میں تاملوں کا یہ احتجاج زور پکڑ گیا۔

ہڑتالیں کی گئیں، ریلیاں نکالی گئیں، اسکولوں اور حکومتی اداروں کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ کانگریس وزیروں کی مدراس آمد پر سیاہ پرچم لہرائے جاتے، لیکن بھارت کے متعصب حکمران اپنی ازلی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ بھارتی پولیس اور فوج نے تاملوں کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا، سیکڑوں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے، تشدد کے واقعات میں بہت سے لوگ مارے گئے۔

بے شمار زخمی ہوئے، بھارتی ریاست آسام میں آزادی کی تحریک 90 کی دہائی میں شروع ہوئی، جب ایک مسلح گروہ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام نے آسام کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ بھارتی حکومت نے اس تنظیم کو فی الفور نہ صرف کالعدم قرار دے دیا، بلکہ اس کے خلاف آرمی آپریشن بھی شروع کردیا گیا، جو تاحال جاری ہے، بھارتی فوج نے خود کو حاصل چنگیز خانی اختیارات کے تحت آسام کے لوگوں پر ظلم و جبر کی انتہا کردی۔

10 ہزار سے زائد آسامیوں کو قتل کر دیا گیا ہے، ہزاروں زخمی ہوئے جن میں سے بہت سے زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں لاپتا ہیں۔ آسام میں مسلم یونائیٹڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام کے نام سے ایک مسلم تنظیم بھی کام کررہی ہے۔ جو آسام کے مسلمانوں کو بھارت سے آزادی دلانا چاہتی ہے۔ وقت کے ساتھ آزادی کی یہ چنگاریاں شعلہ حوالہ میں ڈھل رہی ہیں۔

جو ایک دن بھڑکے گا اور اپنی راہ کی ہر رکاوٹ کو جلاکر خاک کر دے گا۔ علیحدگی کی ایسی ہی تحریکیں ناگالینڈ، منی پور اور تری پورہ میں بھی جاری ہیں اور ان ریاستوں کے باسی بھی بھارت کی حکومتوں کے جانب دارانہ رویوں اور بھارتی فوج کے آپریشن کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے سخت نالاں ہیں اور بھارت کے ساتھ مزید رہنے کو تیار نہیں۔

ان کی مشکل و سائل کی کم یابی اور مناسب قیادت کا فقدان ہے۔ جس دن وسائل اور اچھی قیادت ملی علیحدگی کی تحریکیں پوری توانائی سے شروع ہو جائیں گی اور بھارت کا ان ریاستوں کو اپنے ساتھ رکھنا ممکن نہ رہے گا۔ بھارت جو اندرونی اور بیرونی ہر طرف سے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ آر ایس ایس کی انتہا پسندی اور اقلیتوں کا آزادی کا جنون جلد ہی بھارت ماتا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا۔

ٹکڑوں میں تقسیم کر دے گا دنیا کے نقشے میں بھارت اپنا وجود کھو بیٹھے گا اور اقلیتں ایک آزاد ریاست میں پر امن طور پر رہ سکیں گی۔

Check Also

Aankh Ke Till Mein

By Shaheen Kamal