Oont Ka Waqia Aur Janwaron Se Husn e Salook
اونٹ کا واقعہ اور جانوروں سے حسنِ سلوک
گزشتہ ماہ جو سانحہ رونما ہوا جس میں بے دردی سے ایک بے زبان جانور کی ٹانگ کو محض تعصب کی بنیاد پر کاٹ کر رکھ دیا گیا میری سوچ پلک جھپکتے محو سفر ہوئی اور حضرت صالحؑ کی اونٹنی کا واقعہ ذہن میں گردش کرنے لگا۔ اس واقعے میں صرف ایک جانور کے ساتھ ظالمانہ رویے کی مماثلت نہیں ہے بلکہ عقائد و نظریات کی بھی ہے۔
حضرت صالحؑ کی قوم قدرتی وسائل میں خود کفیل تھی پانی کے ذخائر انہوں نے مسخر کیے ہوئے تھے، جس سے انکی کھیتیاں سیراب ہوتی تھیں۔ یوں کہہ لیجئے کہ موجودہ دور کے جاگیردار تھے۔ کھیتیوں، پانی کے ذخائر پر وہ قابض تھے اور حاکمانہ اور جاگیردارانہ سوچ کے مالک تھے۔ اپنے کھیتیوں میں وہ غریب غربہ کے جانوروں کو چرنے نہیں دیتے تھے۔ پانی کا ایک گھاٹ تھا جہاں سے امراء اور غربہ کے جانوروں کے پانی پینے کے دن مقرر تھے، مگر اس میں بھی وہ تعصب کا مظاہرہ کرتے اور دنوں میں ہیر پھیر کر دیتے تھے۔
قرآن میں اللہ تعالی واضح فرماتے ہیں کہ قدرتی وسائل جن کو بروئے کار لا کر انسان رزق پیدا کرتے ہیں، یہ سب اللہ کی ملکیت ہیں۔ ان پر کوئی شخص واحد قابض نہیں ہو سکتا۔ رزق پیدا کرنے کے یہ تمام قدرتی وسائل سب بنی نو انسان کے لیے یکساں میسر ہونے چاہیں۔ یہ کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہونے چاہیں۔ زمین پر لکیریں، اور اس کی حد بندی جاگیدارانہ نظام نے کھینچی۔ قران میں اللہ تعالی کہتے ہیں"الارض لِلہ" کہ "زمین اللہ کی ہے"۔
ہم اس کے وارث نہیں ہو سکتے۔ سورة واقعہ آیت 63 تا 73 میں یہی موضوع بیان کیا گیا ہے۔
اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو۔ اسے تم ہی اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر ڈالیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں بناتے ہی رہ جاؤ۔ اچھا یہ بتاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو۔ اس سے بادلوں سے بھی تم اتارتے ہو یا ہم برساتے ہیں۔
اللہ تعالی نے تمام قدرتی وسائل کا ذکر کرکے انسان کو اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے پوچھا ہے کہ "ان سب کے خالق تم ہو؟ اگر ان سب کی تخلیق میں تمہاری کچھ بھی شراکت داری ہے؟ نہیں نا۔۔ تو تم کیسے خود کو ان کا مالک سمجھتے ہو؟"
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ ایسا نظام جو صرف ایک طبقے کے علاوہ باقی سب کا معاشی استحصال کرتا ہو "طاغوتی" ہے۔
یہ سانحہ جو کچھ روز پہلے ہمارے ملک میں پیش آیا وہ اِسی طرح کی سوچ کا غماز ہے، کہ ایک غریب کا اونٹ کسی وڈیرے کے کھیت میں چر بھی نہیں سکتا۔
اللہ تعالی نے حضرت صالحؑ کو معجزاتی طور پر جو اونٹنی بھیجی اصل میں وہ ان لوگوں کا اِس سوچ کا امتحان تھی کہ آیا وہ اس کو اپنی چراہگاہ میں چرنے دیں گے یا نہیں۔ اپنے اس امتحان میں وہ ناکام ہوئے اور انہوں نے "ناقۃ اللہ" کی ٹانگوں کو کاٹ کر پھینک دیا، اور عذاب الٰہی سے دوچار ہوئے۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ نے متعدد مقامات پر جانوروں، پرندوں سے شفقت کا برتاؤ کرنے کی تلقین کی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک اونٹ نے آپ ﷺ سے اپنے مالک کے رویے کی شکایت کی۔ آپ نے اس شخص کو قیامت کے عذاب کی وعید سنائی اور بے زبان ذی روح سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔
قیامت کے دن جس نے ناحق بکری کا ایک سینگ بھی توڑا ہوا ہوگا تو اس بکری کو انصاف دلایا جائے گا۔
احادیث میں کئی ایک ایسے واقعات ملتے ہیں جس میں جانوروں کے ساتھ اچھے سلوک پر بخشش اور برے سلوک پر وعید سنائی گئی ہے۔ جیسے کہ ایک عورت نے بلی کو باندھ کر رکھا ہوا تھا، اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلی گئی اور ایک آدمی نے پیاسے کتے کو اپنے جوتے سے پانی پلایا تو اللہ تعالی نے اس کے اس عمل کی بنا پر اس کی بخشش کر دی۔
ہمارا دین جانوروں، درختوں کو جنگ کی حالت میں بھی مارنے اور کاٹنے سے منع کرتا ہے۔ ان بے زبان ذی جان کا خیال رکھنے کی ہمارا دین اور نبی ﷺ بہت تلقین کرتے ہیں۔
ایک سفر کے دوران ایک صحابی نے چڑیا کے انڈے اٹھا لیے تو وہ چڑیا بے چین ہو کر ادھر ادھر کے چکر لگا رہی تھی آپ ﷺ نے صحابہ سے دریافت کیا اور پھر ان صحابی کو تلقین کی کے چڑیا کے انڈے واپس رکھو۔
دین اسلام امن کا دین ہے جو زندگی رکھنے والی ہر جاندار چیز کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ بھلے وہ جانور ہوں، حشرات ہوں، چرند پرند یا درخت۔ جو کوئی بھی ان بے زبان جانوروں کے ساتھ ظلم کرے، ان کی بساط سے زیادہ ان پر بوجھ ڈالے نبی کریم نے اس عمل کو نہ پسند فرمایا ہے۔
قیامت کے دن ظلم کرنے والے کو اس کی سزا دی جائے گی اور جس پر ظلم ہوا اس جانور کو اس کا بدلہ دلایا جائے گا۔ یو این او کے چارٹر میں میں فلاح بہبود کے یہ راہنما اصول تو موجودہ صدی میں جا کر شامل کیے گئے جب کہ ہمیں یہ رہنما اصول آج سے 1400 سال پہلے ہمارے آقا ﷺ نے بتا دیے تھے۔