Totay Ki Taain Taain
طوطے کی ٹائیں ٹائیں
مولانا رومیؒ نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے کہ ایک صاحب نے ایک طوطا پال رکھا تھا اور وہ اس سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بدقسمتی سے ایک دن ایک بلی طوطے پر جھپٹی اور طوطا اُٹھا کر لے گئی۔ وہ صاحب رونے لگے لوگوں نے پوچھا جناب آپ کیوں روتے ہیں ہم آپ کو ایک اور طوطا لا دیتے ہیں تو وہ صاحب بولے میں طوطے کی جدائی پر نہیں اپنے آپ پر رو رہا ہوں۔ پوچھا گیا وہ کیوں؟ تو کہنے لگے دراصل میں نے طوطے کو کلمہ پڑھنا سیکھا رکھا تھا۔ وہ سارا دن کلمہ پڑھتا رہتا تھا لیکن جب بلی طوطے پر جھپٹی تو طوطا کلمہ بھول گیا اور ٹائیں ٹائیں کرنے لگا۔ مجھے یہ فکر کھاے جارہی ہے کہ میں بھی کلمہ پڑھتا ہوں جب موت کا فرشتہ مجھ پر جھپٹے گا تو نامعلوم میری زبان سے کلمہ نکلے گا یا طوطے کی طرح ٹائیں ٹائیں نکلے گی؟
میرے عزیزو! کلمہ تو ہم سب لوگ بھی پڑھتے ہیں مگر جب کوئی دکھ یا غم ہم پر جھپٹتا ہے؟ تو ہم کلمہ بھول کر طوطے کی طرح ٹائیں ٹائیں کرنے لگ جاتے ہیں اور اس ٹائیں ٹائیں میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس کریم اللہ کے سوا ہمارا گزارہ ہی نہیں ہے ہم ٹائیں ٹائیں کر بھی کس کو رہے ہیں جو قادر غالب اور بڑی حکمت والا ہےجو اپنا امر پورا کرنے میں نہ فرشتوں کا محتاج ہےنہ انسانوں کا محتاج جو کہتا ہے ہو جا وہ ہو جاتا ہے۔ اس ذات کی پہچان یہی ہے کہ جب کسی کو اپنی رحمت کے قریب کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے سکون قلب عطا فرماتا ہے اور جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اس کے دل سے سکون چھین لیتا ہے۔
وہ سکون دے تو کوئی چھین نہیں سکتا اور وہ چھیننے پر آے تو کوئی گولی کوئی انجکشن کوئی نشہ سکون دے نہیں سکتا۔ ہر نوالہ حلق سے نیچے اترنے سے پہلے اس کریم سے پوچھتا ہے مولا میں اس کھانے والے کے لیے غذا بنوں کہ بیماری بن جاوں۔ ہر نوالہ اس کریم کے امر سے ہمارے حلق سے نیچے اتر رہا ہے وہ جس پر چاہے اپنی نعمتوں کی برسات کردے اور جس سے چاہے اس سے چھین لے۔
فرمایا میرے کچھ ایسے محبوب بندے ہیں جو مجھ سے جنت مانگیں تو ساری جنت انکے قدموں میں ڈھیر کردوں اور اگر دنیا مانگیں تو ایک کھونٹی کپڑے لٹکانے کو بھی نہ دوں وہ بچانے پر آے تو آگ کے شعلوں میں حضرت ابراہیمؑ کو بچا کر دکھادے وہ نہ چاہےتو درخت میں پناہ لیے کھڑے اپنے پیغمبر حضرت ذکریاؑ کو آرے سے چیر جانے دے وہی اکیلا سب بادشاہوں کا بادشاہ، وہی قادر، وہی روف، وہی رحیم، وہی رحمان، وہی کریم، وہی حلیم، وہی حکیم، وہی صمد، وہی قدوس، وہی المالک، وہی بصیر وہی نصیر، وہی خبیر، وہی باسط، وہی رازق، وہی اللہ واحد لاشریک ہے۔
انسان ایک غافل منصوبہ ساز ہے جو اپنی ساری پلاننگ میں کبھی اپنی موت کو شامل ہی نہیں کرتا اور پھر طوطے کی طرح ٹائیں ٹائیں کرتا ہے۔ موت کا خوف سب انسانوں میں پائی جانے والی ایک صفت ہے تھوڑا یا زیادہ سب لوگ موت کے لمحے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ خوف انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے جس کی وجہ سے انسان خطرناک حوادث سے بھاگتا ہے اور اپنے آپ کو موت سے بچاتا ہے خوف اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے جو خالق کائنات نے انسان کے وجود میں ودیعت کی ہیں۔
اس خوف میں بھی ہمارے رب کی مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں موت کا خوف انسانی زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی بنا دیتا ہے اور انسان کو بڑے بڑے کارنامے انجام دینے پر مجبور کر دیتا ہے یہ خوف زندگی میں توانائی اور لذت پیدا کرتا ہے زندگی مختصر ہوتی ہے اسلیے انسان اپنے مشن یا مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تیزی اور پھرتی دکھاتا ہے۔ جب لوگ زندگی اور دنیا کو چھوڑنے کا تصور کرتے ہیں تو خوفزدہ ہوجاتے ہیں اسی لیے کہتے ہیں کہ موت سے زیادہ خوفناک شے موت کا خوف ہوتا ہے جبکہ مر تو انسان تب ہی جاتا ہے جب وہ حق اور انصاف کے لیے کھڑے ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔
میرے ایک دوست ظہور ندیم صاحب اپنی موت کے حوالے سے بہت فکر مند رہتے تھے ان کواپنی جان نکلنے کے تصور اور قبر کی تنہائی سے ہی اتنا خوف آتا تھا کہ وہ سوچ سوچ کر کانپنے لگتےتھے۔ مجھے کہنے لگے یار کبھی تمہیں بھی یہ خوف آتا ہے؟ تو میں نے کہا بھائی بلکل بھی نہیں موت ایک ایسا دروازہ ہے جس میں سے ہر ایک کو گزرنا ہے موت دراصل میں ابدی زندگی کا آغاز ہوتی ہے ارسطو نے کہا تھا "سب سے بڑا بزدل وہ ہے جو موت سے ڈر گیا "کیا موت زندگی سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوگی؟ بچے کو کبھی ماں کے پاس جانےسے ڈرتے دیکھا ہے یا کسی بچے کو ماں کی جانب خوشی سے لپکتے اور لپٹتے دیکھا ہے؟
ہمارا خداتو ہم سے ہماری ماں سے بھی ستر گناہ زیادہ محبت کرتا ہے۔ ماں سے تو بچہ مانگ بھی لیتا ہے لیکن ہمارے رب کو تو بتانے اور اس سے مانگنے تک کی ضرورت نہیں پڑتی وہ تو ہمارے دلوں میں مخفی رازوں اور خواہشوں سے پہلے سے واقف ہے رزق ہو یا زندگی بنا مانگے عطا کرتا ہے۔ کیا کوئی ماں جس نے صرف جنم دیا ہے اپنے بچے کو خود تکلیف دے سکتی ہے؟ تو پھر ہمارا خالق جس نے ہمیں تخلیق کیا اور احسن تقویم بنایا ہے کیا یہاں اور وہاں ہمارے ساتھ نہیں ہوگا؟ ہمارے لیے یہ تصور کیا کم ہے کہ ہم وہاں اللہ اور اپنے پیارے نبی ﷺکے دیدار کا شرف حاصل کریں گے؟ لیکن اس کے لیے اللہ پر کامل ایمان اور اطاعت اسکی خوشنودی، رسول پاک ﷺ سے دنیا کے سب رشتوں سے زیادہ محبت اپنے دنیاوی معاملات کی درستگی درکا ر ہوتی ہے اور اللہ کی خوشنودی کا ہر ہر راستہ خدمت خلق سے ہوکر گزرتا ہے۔
رب کی عبادت و اطاعت ہماری بندگی اور ایمان کی علامت ہے لیکن انسانیت کی خدمت اور لوگوں کے ساتھ بہترین معاملات سے رب کی خوشنودی کا حصول ہمارے سارے دکھوں، پریشانیوں اور وسوسوں سے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مختصر الفاظ میں ایمان و عبادات کے ساتھ ساتھ ہمارا مقصود و مطلوب اور اسکے حصول کا ذریعہ یہ ہے۔ مقصد رضاالہی کا حصول۔۔ ذریعہ خدمت خلق۔۔ اور نمونہ اسوہ حسنہ محمد مصطفیٰ ﷺ ہونا چاہیے اللہ کے دوست وہ ہوتے ہیں جن کو اسکی خوشنودی حاصل ہو جاے۔
قرآن پاک میں سورۃ یونس میں ارشاد ربانی ہے "خبرادار بے شک جو اللہ کے دوست ہیں نہ ان پر ڈر ہے اور نہ خوف اور نہ وہ غمگین ہو ں گے"۔ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ عاشق کی عید محبوب کا دیدار ہے اور محبوب کا یہ دیدار اُسے دنیا میں دو مرتبہ ملتا ہے پہلی بار جب اس کی "میں" مرتی ہے اور دوسری بار جب وہ خود مرتا ہے"۔
میرے مرحوم والد صاحب فرماتے تھے "اپنی آسان اور اچھی موت کے لیے دوسروں کی زندگیوں کو آسان اور اچھا بناو اپنی قبر روشن کرنا چاہتے ہو تو لوگوں کے گھروں اور زندگیوں میں اجالے پھیلاو کیونکہ جب موت کا وقت آتاہے تو ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں ملتی اور کفن اور قبر میں صرف لوگوں کی دعائیں ہی سما سکتی ہیں" دعاکریں میرا، آپ سب کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اس سخت گھڑی میں طوطے کی طرح ٹائیں ٹائیں کی بجاے ہمارے لبوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہو جاے۔