Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Kamyabi Ki Zakat

Kamyabi Ki Zakat

کامیابی کی زکوۃ

ہر انسان کامیابی کی خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک کامیاب انسان بنے لیکن کہتے ہیں کہ ہر عمل کی ایک زکوۃ ہوتی ہے۔ اسی طرح کامیابی کی بھی ایک زکوۃ ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ "درگزر کرنا کامیابی کی زکوۃ ہے"۔ یہ ایک ایسی فضیلت ہے۔ جس کے ذریعے انسان بہت سی مشکلات پر قابو پاتا اور بہت سی فضیلتوں کو حاصل کرتا ہے۔

معافی مانگنا اور معاف کرنا اعلیٰ ظرفی ہے، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو معاف کرنا شروع کر دیں، اللہ آپ کو معاف کرے گا۔ غلطیوں کو معاف نہ کرنے سے دوستی کا رشتہ کمزور ہوتا ہے امیر المومنینؑ فرماتے ہیں کہ دوستوں کی خطاوں کو تحمل (برداشت) نہ کرنے والا تنہائی کی موت مرتا ہے۔

ہمارا دین کہتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے زیادہ دیر تک ناراض نہ رہو اور کوشش کرو کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے قصور معاف کر دو۔ اُن کے لیے دل میں بغض نہ رکھو، اُن کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آو اگر کوئی غلط کر رہا ہے تو اُس کو سمجھاو نا کہ اُس سے بدلہ لو اور اُسے جگہ جگہ ذلیل کرو۔ وہ کیسا مومن/مسلمان ہے جس کے ہاتھ و زبان سے دوسرا مومن و مسلمان محفوظ نہ رہے۔ کہنے کی اور سننے کی حد تک ہمیں یہ باتیں بہت اثر کرتی ہیں لیکن جب ہم پر ایسا وقت آتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن یا بھائی کی غلطی کو معاف/درگزر کریں تو عجیب مشکل ہوتی ہے۔ اگر ہم نے کسی کا دل دُکھایا ہے یا کسی کے ساتھ بُرا کیا ہے جب تک ہمیں وہ انسان معاف نہ کرے گا جس کے ساتھ ہم نے ایسا کیا تو اللہ تعالی بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔

آپ سب بھی اس سے متفق ہوں گے کہ لوگ اگر دوسرے کے ساتھ زیادتی کے بعد یا کوئی غلطی سرزد ہوجانے کے بعد سامنے والے کے آگے اپنی غلطی کا اعتراف کریں یا معافی مانگیں تو نہ صرف انہیں خود سکونِ قلب محسوس ہوگا بلکہ سامنے والے کے دل میں بھی اُن کی عزت بڑھتی ہے۔ پھر کے بعد یہ بھی کہ اگر کوئی غلطی، کوتاہی یا کسی کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی کے آپ مرتکب ہورہے ہیں تو معافی کیسے ہو؟ ہوئی۔ اعتراف اس کے بعد کوشش کریں کہ یہ غلطی دوبارہ نہ ہو۔ یعنی اپنی کوتاہی کا احساس کرنا بھی لازمی ہے کہ دیکھیں کہ کہاں اور کیا اب اسے کس طرح درست کیا جائے۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر دوسرے فریق سے معافی سے خوشگوار تعلقات استوار ہوتے ہیں حضرت واصف علی واصفؒ کہتے ہیں"لوگوں کو معاف کرکے بے شک بےوقوف بن جاو لیکن یہ سب سے بڑی دانائی ہے "آپ نے اللہ کی رضا کے لیے معاف اسے کرنا ہے جسے آپ معاف کرنا نہیں چاہتے"۔

دوسرے فریق کو بھی فراخ دلی سے اس کی معافی کو سراہنا چاہیے، اسے عزت دینی چاہیے۔ بعض جگہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک بندہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معافی مانگتا ہے، دوسرے کے دل میں مزید بغض آجاتا ہے کہ دیکھا میرا اندازہ صحیح نکلا، اس نے میرے ساتھ برا کیا ہے، آئندہ بھی اس سے مجھے احتیاط کرنی چاہیے۔ یعنی دونوں طرف سے فراخ دلی کا مظاہرہ تعلقات میں بہتری لائے گا۔ کیونکہ بندہ گناہ کرتا ہے اور جب اسے اپنے گناہ کا احساس ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے گڑگڑا کر معافی طلب کرتا ہے تو مہربان رب اپنے بندے کا بڑے سے بڑا گناہ معاف کردیتا ہے۔ پھر وہ بندہ رب کی رضا کی خاطر آئندہ اس گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔

اس مثبت عمل سے بندہ اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے۔ یہی صفت بندوں میں بھی ہونی چاہیے۔ اپنے رب کی خوشنودگی کے لیے بندوں کی معافی کو قبول کرکے نہ صرف انہیں معاف کرنا چاہیے بلکہ ان کے لیے اپنے دلوں کو بھی صاف رکھنا چاہیے۔ معافی کا مطلب صرف ایک دوسرے کو گلے لگانا نہیں بلکہ یہ عہد ہے کہ جو اذیت اس نے مجھے دی وہ میں نے اسکو نہیں دینی اور معاف وہی کر سکتا ہے جو معافی مانگنا جانتا ہو۔ قول حضرت علی کر م اللہ وجہہ ہے "دو اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب کبھی تولہ نہیں جا سکتا معاف کرنا اور انصاف کرنا"۔

ہمارے سامنے آپﷺ کی مثالِ عظیم موجود ہے۔ آپ ﷺ بڑے سے بڑے دشمن کو معاف کردیتے تھے۔ اسی معاف کرنے کی عادت کی بنا پر آپﷺ نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا فتح مکہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ یہ عمل صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں بھی نظر آتا ہے۔ انسان بندہ بشر ہے، اس سے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں، کچھ صحابہ کرامؓ سے غلطیاں سرزد ہوئیں تو انہوں نے اپنی غلطی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ سزا کے لیے بھی تیار ہوگئے۔

تاریخِ اسلام میں ہمیں ایسے ہی بہت سے واقعات نظر آتے ہیں۔ اپنی غلطی پر معافی نہ مانگنا تکبر اور اکڑ پن ہے۔ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا اور ضد پر قائم رہنا ایسی خصلت ہے جس کی وجہ سے سوائے دوریوں کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہماری اناء اور ہماری ضد ہمیں اپنوں سے دور کرتی چلی جاتی ہے اور پھر آپ یہ رویہ دوسروں کو بھی سرد مہری سے پیش آنے پر مجبور کردیتا ہے۔

میں نے بےکئی لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی بھی بات کو وجہ بنا کر سالہا سال آپس میں رشتے ناطے، مرنا جینا اور ملنا جلنا بند کر دیتے ہیں اور دوسروں کو بھی مجبور کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے تعلقات ختم کریں ورنہ ہم آپ سے بھی تعلق توڑ دیں گے اور پھر ان کی پوری ایک جنریشن اسکی سزا برداشت کرتی ہے اور پھر خود ہی آپس میں تو شیر وشکر ہو جاتے ہیں مگر جو لوگ ان کی حمایت اور ساتھ دینے کے لیے اپنے تعلق کو خراب کر لیتے ہیں وہ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں نہ وہ ادھر کے رہتے ہیں اور اُدھر کے ہی رہ جاتے ہیں۔

دراصل یہ اناء غصہ اور قطع تعلقی برائی اور گناہ تو ہے ہی مگر ماہر نفسیات اسے ایک موذی بیماری بھی کہتے ہیں۔ جو بہت سے لوگوں کے جینز اور خون میں شامل ہوتی ہے مگر قابل علاج ہے میں نے ایک ایسے بیٹے کو دیکھا جس نے اپنی اناء اور غصے کی باعث اپنی مردہ ماں کا نہ آخری دیدار کیا اور نہ اس کے جنازہ کو کندھا ہی دیا یعنی اپنی دنیا و آخرت اپنی اناء کی وجہ سے خراب کرلی۔

ایک اور شخص نے وصیت کی تھی کہ میرے فلاں بھائی کو میرے جنازے کو ہاتھ مت لگانے دینا۔ میں نے ایک جاہل خاندان میں نفرت کو پشت در پشت سفر کرتے دیکھا ہے۔ مسلمان اور انسان ہونے کے باوجود یہ لوگ اسقدر سنگدل اور سفاک کیوں ہو جاتے ہیں؟ اور اپنے قطع رحمی کے شر کو کیسے اپنی اولاد میں منتقل کر جاتے ہیں؟ جبکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا جو کسی کو نہیں بخشتا اسے نہیں بخشا جاتا"۔

حضرت عیسیٰؑ کہتے ہیں کہ "اگر تم لوگوں کے قصور معاف نہیں کرو گے تو خدا وند بھی تمہارے قصور معاف نہیں کرے گا"۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ "جلدی سے معاف کرنا انتہائے شرافت اور انتقام میں جلدی کرنا انتہائے رزالت ہے "حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ "بھائی کا حق دنیا میں معاف کرالے ورنہ وہاں نیکیاں دینی پڑیں گیں"۔

یاد رکھیں جو انسان انتقام اور کینہ کو دل میں تازہ رکھتا ہے اور معافی کا جذبہ نہیں رکھتا وہ گویا اپنے زخموں پر خود نمک چھڑک کر انہیں تازہ اور ہرا رکھتا ہے اگر وہ معافی کا جذبہ رکھتا تو اسکے زخم آسانی سے بھر جاتے اور اس کے لیے آرام کا باعث ہوتے۔ دراصل معاف نہ کرنا خود کو سزا دینا ہوتا ہے اور معاف کر دینا دشمن پر فتح حاصل کر لینا ہوتا ہے اور معاف نہ کرنا انسانی شکست کی علامت ہےاور شکست کا دکھ انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے۔

میرے استاد شاہ محمد صاحب کہتے تھے معاف کرنے میں اور معافی مانگنے میں پہل کرنے والا اللہ کا ولی ہوتا ہے معاف کرنا اگر بڑائی ہے تو معافی مانگنا اس سے بھی بڑی بڑائی ہے۔ آج ہمارا معاشرہ جس اخلاقی پستی، بے سکونی، پریشانی اور عدم برداشت کے گڑھے میں گر چکا ہے اسکی بےشمار وجوہات میں سے سر فہرست عفو و درگزر کا فقدان ہے کیونکہ معاف کرنا اور معافی طلب کرنا اللہ اور اسکے رسول کا حکم ہے جبکہ ضد، اناء، غصہ دلوں میں پالنا اورقطع رحمی تکبر اور بڑائی کے زمرے میں آتی ہے جس کے پیچھے وہ شیطانی قوتیں چھپی ہوتی ہیں جو انسانی معاشرے میں بے سکونی کا باعث بنتی ہیں۔ ٓ جبکہ ایک خوشگوار زندگی کا راز عفو و درگزر میں پوشیدہ ہے۔

بقول مولانا رومیؒ "سنو تحمل سے، دیکھو رحم سے، بولو دھیمے لہجے میں اور معاف کرنا سیکھو اسی میں درویشی کا راز ہے"۔ یقیناََ ہم خاک سے بنائے گئے ہیں اور خاک ہی ہو جائیں گے نہ جانے کس حالت میں دنیا سے جانا پڑ جائے۔ اس لیے اپنے سفر آخرت میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اور اس کے بندوں سے معافی مانگتے رہو بیشک وہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad