Boxing Ki Dunya Ka Boorha Sher
باکسنگ کی دنیا کا بوڑھا شیر
کھیلوں اور کھلاڑیوں کی اپنی ہی ایک دنیا یوتی ہے۔ کھیل کا میدان، گراونڈ، رنگ، اکھاڑہ، وہ جگہ ہوتی ہے جس سے کھلاڑی کی محبت مرتے دم تک ختم نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک تو کھلاڑی اور گروانڈ کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ ہر کھلاڑی اپنا میدان یا رنگ یا اکھاڑہ کبھی بھی خوشی سے نہیں چھوڑتا اور ہمیشہ رنگ میں اترنے کا خواب اور کھیلنے کی خواہش رکھتا ہے۔ میں نے بڑے بوڑھے کھلاڑیوں کو اکثر کھیل کے گروانڈ کے باہر بڑی حسرت سے نوجوانوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے ہوئے پایا ہے یا پھرر ٹیلی ویژن کی سکرین کے سامنے بیٹھے کھیلوں پر تبصرہ کرتے دیکھا ہے۔
یہ نظام قدرت ہے کہ ایک نہ ایک دن کھلاڑی کو اس گراونڈ یا رنگ کو خیرآباد کہنا ہی پڑتا ہے۔ دنیا کے نامور کھلاڑی آخری دم تک اپنے کھیل سے کسی نہ کسی طور جڑے رہتے ہیں۔ میدان یا رنگ میں کھلاڑیوں کے عروج کے دن اور ان دنوں کی یادیں ان کا سرمایہ حیات ہوتی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کاش وہ سنہرے دن ایک بار پھر لوٹ آئیں۔ رنگ اور گروانڈ کی روشنی اور شائقین اور پرستاروں کا شور اسکے کانوں اور آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا۔ وہ باربار اپنی کارکردگی کی شاندار ویڈیو ز دیکھ کر اپنے کارناموں کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ باکسرز عام طور پر بےرحم ہوتے ہیں اور عبدالعزیز ٹائسن ان بےرحم باکسرز میں کچھ زیادہ ہی سنگ دل واقع ہوا ہے۔ وہ ایسے باکسر کے طور پر مشہور تھے جو اپنے حریفوں کو فولادی مکوں سے رنگ میں ڈھیر کر دینے میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ اس بات کا ندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے کیریر کے اکتالیس فیصد باکسنگ مقابلے پہلے ہی روانڈ میں جیتے ہیں۔ عبدالعزیز سابقہ مائیک ٹائسن اپنے جارحانہ اور جذباتی انداز کی باعث ہمیشہ ہی متنازعہ اور منفرد باکسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ دنیا کے کئی باکسرز کی طرح غربت کے سائے میں پل کر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والا ٹائسن مختلف عادات اور حرکتوں کی باعث میڈیا میں ہمیشہ نمائیاں ر ہا ہے۔
اپنے مخالف باکسر ہولی فیلڈ کا کان چبانے پر سزا پانے والے سب سے کم عمر عالمی ہیوی ویٹ چیمپین کا اعزاز بھی ان ہی کے پاس ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنے اور سننے میں آیا کہ 2003ء میں انہوں نے مالی طور پر دیوالیہ قرار دینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ وہ اپنی زندگی میں کمائے گئے تین سو ملین ڈالرز گنوا چکا ہے۔ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحہ وہ تھا جب 2009، میں ان کی چار سالہ بیٹی گھر میں موجود ایکسرسائز مشین میں گردن پھنس جانے کی وجہ سے ہلاک ہوگئی تھی۔ اسی طرح جیل میں رہنے کے دوران اس نے اسلام قبول کیا اور اپنا مسلم نام عبدالعزیز رکھا تھا۔ بہر حال کسی نہ کسی حوالے سے ان کا نام انٹرنیشنل میڈیا پر ہمیشہ سنائی دیتا رہا ہے۔ کسی نہ کسی حوالے سے ان کی شہرت کے چرچے ضرور ہوتے رہے ہیں۔ اس کے اسٹائل اور انداز کی مقبولیت اس کے پرستاروں کے دلوں میں بستی ہے۔
پرسوں سولہ نومبر کو امریکہ کے ٹائم کے مطابق آج رات دس بجے باکسنگ رنگ کی دُنیا پر لمبے عرصے تک دہشت کی علامت بنے رہے باکسنگ لیجنڈ عبدالعزیز سابقہ مائیک ٹائیسن 58 برس کی عمر میں ایک مرتبہ پھر اپنے بل پے کرنے اور قرض چُکانے کے لیے اپنے سے اکتیس سالہ چھوٹے ایک 27 سالا باکسر کے مقابل اکھاڑے میں اُترے۔ ٹیکساس کے اسٹیڈیم میں ہزاروں مایوس شائقین اور نیٹ فلیکس پر لاکھوں لوگوں نے یہ منظر لائیو دیکھا کہ کیسے ایک یو ٹیوبر جیک پال دوبار ہیوی چیمپین رہنے والے باکسنگ لیجنڈ کےکیریر کے اختتام کا باعث بنے۔ اس پروفیشنل ہیوی ویٹ باکسنگ مقابلے کے دوران جیک پال نے اٹھاون سالہ بوڑھے ٹائسن کو باآسانی شکست دی اور یوں دنیا بھر میں بےشمار اندازوں، تبصروں اور تجزیوں کی ناکامی سامنے آئی۔
اگرچہ گذشتہ جمعے کو ایک پروگرام کے دوران ٹائسن نے جیک کو تھپڑ مارا تھا جس کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اس لڑائی میں جیک کی خوب پٹائی ہو سکتی ہے۔ تاہم اس پورے باکسنگ میچ میں جیک پال کو واضح برتری رہی اور انھوں نے آسانی سے اپنے سے 31 سال بڑے لیجنڈ کو شکست دے دی اور عبدالعزیز ٹائسن بڑھتی عمر میں مضبوط جسامت کے باوجود فٹ ورک کا سہی استعمال نہ کرسکا۔
27 سالہ پال نے دو منٹ کے آٹھ راؤنڈز کے دوران ٹائسن کو کئی زبردست مُکے مارے جبکہ دو راونڈ کے بعد ٹائسن اپنی عمر کے اس حصے میں سست پڑتے نظر آئے۔ جب وہ لڑنے کے لیے رِنگ میں داخل ہوئے تو سب نے خوب سراہا لیکن میچ میں انھیں بے بس دیکھ کر شائقین مایوسی میں نعرے بازی کرنے لگے۔ جبکہ بعض نتائج دیکھنے سے پہلے ہی جانا شروع ہو چکے تھے۔ شاید وہ زندگی بھر جیتنے والے ٹائسن کو ہارتا ہو دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
دنیا کے بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ فائٹ فکس ہے پر جو باکسنگ جانتے ہیں اُنہیں معلوم ہے کہ اس کھیل میں فکس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہ بس فائٹ ہوتی ہے۔ عبدالعزیز ٹائسن بڑھتی عمر میں فٹ ورک کا سہی استعمال نا کرسکے لیکن ان کے کندھے اور بازو اور اعصاب آج بھی پہلے کی طرح مضبوط ثابت ہوئے۔ بوڑھا شیر آج رات اپنی زندگی کا آخری شکار دبوچنے اپنی غار سے باہر آیا۔ گو کہ یہ میچ عبدالعزیز ٹائسن ہار گیا لیکن پوائنٹ ٹیبل پر ہارا۔ لیکن وہ پورےآٹھ راؤنڈ کھیل گیا اور نوجوان نسل کو بتایا کہ عمر کچھ نہیں ہوتی بس ارادے پختہ ہونے ضروری ہیں۔ وہ اپنے مقابل چوالیس باکسرز کو رنگ میں آوٹ کرنے والا لیجنڈ باکسر آخر کار اٹھاون سال کی عمر میں پوائنٹس پر شکست کھا کر بھی اورلڈ ریکارڈ بنا گیا۔
انہوں نے آتھ راونڈز میں سے پہلے دو راونڈ شاندار انداز میں جیت کر اپنی فنی صلاحیتوں کو ثابت بھی کیا لیکن عمر کی زیادتی کی وجہ سے اپنا مخصوص فٹ ورک نہ کر پایا۔ اگر آج وہ یہ میدان مار لیتا تو۔ اُس کے پاس میچ فیس کے علاوہ بھی پیسوں کے انبار ہوتے۔ میچ کے بعد عبدالعزیز ٹائسن فلسطین کا جھنڈا پہنے رنگ میں نظر آئے اور فلسطینیوں سے یکجہاتی کا اظہار کرکے گریٹ عبدالعزیز المعروف مائیک ٹائسن پوری دنیا کے مسلمانوں کے ہار کر بھی ہیرو بن گئے۔ یقیناََ انیس سال بعد رنگ میں اترنا کوئی آسان کام نہ تھا جو اس نے کردکھایا۔ یہ عظیم محمد علی کلے مرحوم کے بعد کسی باکسر کی دوبارہ واپسی کا ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ جس نے پوری دنیا کی توجہ سمیٹ لی ہے۔
سوال یہ ہےکہ ٹائسن کو یہ سب کچھ کیوں کرنا پڑا؟ کہا یہ جاتا ہے کہ ٹائسن کی مالی مشکلات نے اسے اس عمر میں رنگ میں واپسی پر مجبور کیا تھا۔ اس عظیم میچ کے لیے دونوں باکسرز کو کتنی رقم دی گئی ہے اس بارے میں کوئی باضابطہ معلومات تو سامنے نہیں آئیں لیکن رپورٹس کے مطابق جیک پال کو اس میگا فائٹ سے چالیس ملین ڈالرز اور ٹائسن کو بیس ملین ڈالرز ملیں گے۔ جو یقیناََ ٹائسن کی مالی مشکلات میں کسی قدر کمی لا پائیں گیں۔
بہر حال عبالعزیز سابقہ مائیک ٹائسن عظیم محمد علی کلے کے بعد باکسنگ کی دنیا میں اپنے حیرت انگیز اور جارحانہ باکسنگ مقابلوں اور منفرد انداز کی باعث تاریخ کا حصہ رہے گا۔ وہ نوجوان باکسرز اور کھیلوں کی دنیا میں اپنے منفرد اسٹائل کی باعث مقبول رہا اور اس کی باکسنگ کے جارحانہ اسٹائل کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ساٹھ سال کی عمر میں انٹرنیشنل فائٹ لڑنے کا یہ اعزاز بھی شاید ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ وہ پیرانہ سالی میں جیتنے کا خواب تو پورا نہیں کرسکا لیکن اسکے عزم، ہمت، حوصلے، جرات، جیت کی لگن اور پختہ ارادے کی باعث باکسنگ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے