1.  Home
  2. Blog
  3. Jamshaid Nazar
  4. Mazdooron Ke Khoon Mein Tar Surkh Jhande Ki Kahani

Mazdooron Ke Khoon Mein Tar Surkh Jhande Ki Kahani

مزدوروں کے خون میں تر سرخ جھنڈے کی کہانی

شکاگو اپنی بلند ترین عمارات کے باعث دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے امریکہ کا تیسرا بڑا شہر ہے جسے سن 1833 میں عظیم جھیلوں کو دنیا کے تیسرے بڑے دریا "دریائے مسیسپی" کے نظام کے ساتھ منسلک کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ شکاگو کی سڑکوں اور بلند و بالا عمارتوں کے نیچے ان ہزاروں مزدوروں کا خون بہہ چکا ہے جنہوں نے اپنے حق کی آواز بلند کی تھی۔

یہ کہانی انیس ویں صدی کی ہے جب شکاگو ایک نیا صنعتی شہر بن رہا تھا یہاں مختلف ممالک سے آئے ہزاروں کی تعداد میں مزدور کام کرتے تھے جن کی زبان اور مذہب مختلف تھا۔ مزدوروں سے 10 سے اٹھارہ گھنٹے کام کروایا جاتا اور بدلے میں بہت معمولی دیہاڑی دی جاتی تھی۔ سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کا وہاں اس قدر رعب اور دبدبہ تھا کہ مزدوروں کے خلاف کی جانے والی زیادتی پر کسی حکومتی ادارے کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت نہ تھی، ان دنوں چند اخبارات بھی شائع ہوتے تھے لیکن وہ بھی سرمایہ داروں کے خلاف لکھنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔

سرمایہ داروں نے مزدوروں کے درمیان اپنے جاسوس بھی چھوڑ رکھے تھے تاکہ انہیں اطلاع ملتی رہے کہ مزدور احتجاج تو نہیں کر رہے۔ سرمایہ داروں نے غنڈے بھی پال رکھے تھے اگر کوئی مزدور احتجاج کرنے کا سوچتا تو غنڈے بھیج کر اس پر تشدد کروایا جاتا اس مقصد کے لئے پولیس کو بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ مزدور کسی احتجاج کا حصہ بننے لگتے تو ان سب کو نکال دیا جاتا تھا۔ ان سخت حالات کے باوجود مزدور ایک یونین بنانے میں کامیاب ہو گئے جس کا نام تھا (Knights of labor) یعنی مزدوروں کے سپاہی۔

ابتداء میں اس یونین کے اراکین کی تعداد 28 ہزار تھی جو بعد میں آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی۔ Knights of labor یونین کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ ان سے آٹھ گھنٹے کام لیا جائے انہوں نے ایک اشتہار بھی شائع کروایا۔ مزدوروں کی قائم ہونے والی دیگر ٹریڈ یونینز بھی "Knights of labor" یونین کے ساتھ مل گئیں اور ایک فیڈریشن بنائی گئی جس کا نام تھا "Fedration of organized trade labor unions" اس فیڈریشن نے بھی مزدوروں کے کام کے اوقات آٹھ گھنٹے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یکم مئی سن 1886 میں امریکہ بھر میں پانچ لاکھ مزدوروں نے مکمل ہڑتال کرتے ہوئے پرُامن مظاہرے کئے۔

ادھر سرمایہ داروں کو خدشات پیدا ہونے لگے کہ اب مزدور ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں انہوں نے مزدوروں کو ڈرانے اور مظاہروں سے باز رکھنے کے لئے 3 مئی کو ایک ہونے والے مظاہرے پر پولیس کے ذریعے فائرنگ کروا دی جس کے نتیجہ میں چھ مزدور ہلاک ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد مزدوروں نے راتوں رات پچیس ہزار اشتہار چھپوا کر تمام مزدوروں کو اگلے روز شام ساڑھے سات بجے (Haymarket Square) یعنی بھوسے کی مارکیٹ کے پاس اکٹھے ہونے کی ہدایت کی۔

پروگرام کے مطابق اگلے روز وہاں تین ہزار مزدور اکٹھے ہو گئے، ہلکی بارش کے دوران بھی مزدوروں نے مظاہرہ جاری رکھا۔ اچانک پولیس کی بھاری نفری نے وہاں دھاوا بول دیا کسی مزدور نے ایک بم پولیس کی طرف پھینکا جس کے بعد پولیس نے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، سینکڑوں مزدور گولیوں کی زد میں آ کر زخمی ہو گئے جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق چار ہزار مزدور ہلاک ہو گئے۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ مظاہرے میں شریک مزدوروں پر پولیس نے اس قدر گولیاں برسائیں کہ آج تک مرنے والے مزدوروں کی تعداد کا تعین نہیں ہو سکا۔

مظاہرے کے دوران مزدوروں کے ہاتھوں میں سفید جھنڈے تھے جس کا مطلب تھا کہ وہ پرامن مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن جب پولیس نے نہتے مزدوروں پر گولیاں چلا کر انہیں خون میں نہلا دیا، اس خون سے تر ہو کر مزدوروں کے سفید جھنڈے سرخ ہو گئے جبکہ بارش نے بھی مزدوروں کا بہنے والا خون سڑکوں پر اس طرح پھیلا دیا جیسے قیامت آ گئی ہو ہر طرف انسانی لاشیں اور خون نظر آ رہا تھا۔ ان مزدوروں کی قربانی کی یاد میں علامت کے طور پر تب سے مزدوروں کے جھنڈے کا رنگ سرخ ہے۔

اس واقعہ کے بعد زندہ بچ جانے والے مزدوروں نے ہلاک ہونے والے مزدوروں کے خون میں شرابور کپڑے شکاگو کے گلی محلوں اور چوراہوں پر لٹکا دیئے۔ شکاگو کے رہائشی صبح اٹھے تو ہر طرف خون آلود کپڑے لٹکے ہوئے دیکھے۔ ادھر پولیس نے مزدوروں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور آٹھ مزدور یونین لیڈروں پر جھوٹا مقدمہ کرکے انہیں موت کی سزا سنا دی جس میں سے ایک مزدور نے خودکشی کر لی۔ باقی سات مزدوروں کو دردناک انداز میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔

مزدوروں کی فیکٹری مالکان، سرمایہ کاروں اور حکومتی اداروں کے خلاف پہلا ایسا ملک گیر مظاہرہ تھا جس میں لاتعداد قربانیاں دی گئیں، اس تاریخی واقعہ نے دنیا بھر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ مزدوروں کے کام کے اوقات دنیا بھر میں آٹھ گھنٹے ہو گئے۔ اگر وہ مزدور احتجاج نہ کرتے، قربانیاں نہ دیتے تو شائد آج بھی فیکٹری مالکان، سرمایہ کار مزدوروں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لیتے۔

اس تاریخی دن اور مزدوروں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ اور عزرائیل میں آج تک یہ دن نہیں منایا جاتا اور نہ ہی وہ منانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ امریکہ کی سیاہ تاریخ کا دن کہلاتا ہے۔ Heymarket Square میں جس جگہ مزدور لیڈروں نے مال بردار گاڑی کے اوپر تقریریں کیں تھیں اسی مقام پر ان کی یادگار کے طور پر مال بردار گاڑی پر سوار مزدور لیڈروں کا بنایا گیا مجسمہ آج بھی موجود ہے۔

Check Also

Abba Jan Ki Hisab Wali Diary

By Mohsin Khalid Mohsin