Qalam Ki Hurmat Aur Ghost Writing
قلم کی حرمت اور گھوسٹ رائٹنگ
یہ تحریر ان لکھاریوں کے لئے ہے جو قلم و ادب کے میدان میں نو آموز ہیں۔ ایک طرف کچھ لکھنے کا شوق عمل پر ابھارتا ہے، دوسری جانب مہنگائی کے دور میں فری لانسنگ کا شور و غوغا ہے۔ سب سے پہلے تو ایک اچھا کام کیجئے کہ آپ کے نزدیک لکھنے کا کیا مقصد ہے، اس کا تعین کر لیجیے۔ آپ اپنی ذات و جذبات کا اظہار چاہتے ہیں تو اس کے لئے ڈائری بہترین مقام ہے۔
اگر آپ شوقیہ لکھتے ہیں اور اپنی تحریر کے بارے میں لوگوں کی رائے جاننا چاہتے ہیں تو اپنی فیس بک وال پر لکھ سکتے ہیں (لوگ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ہی کمنٹ کریں گے) لیکن اگر آپ "اصلاح، معاشرہ اور امت مسلمہ کے مسائل کو اجاگر کرنے" کے لئے لکھتے ہیں تو پھر آپ ایک مشن پر ہیں، ایک عظیم منصب پر ہیں جس کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں جاننا بہت ضروری ہے۔
تفاسیر میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چیزوں میں سب سے پہلی چیز "قلم" تخلیق کی۔ علامہ اقبال کی شاعری میں جس "لوح و قلم" کا ذکر آتا ہے وہ وہی اللہ تعالیٰ کا قلم ہے اور "لوح" سے مراد وہ کتاب ہے جس میں ازل سے ابد تک کے حالات یعنی تقدیر لکھ دی گئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پہلی وحی کا آغاز "اقراء" سے ہوا یعنی سورہء علق، جس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ انسان کو قلم سے علم سکھایا گیا ہے۔
اس کے بعد انسان کے ساتھ دو فرشتے متعین کئے گئے جنہیں"کراماََ کاتبین" یعنی "معزز لکھنے والے" کہا گیا جو ہر وقت انسان کی اچھائیاں اور برائیاں لکھتے رہتے ہیں، نامہء اعمال کے رجسٹر کو اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ انہیں"معزز لکھنے والے" کہہ کر خاص پروٹوکول دیا گیا۔ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے دور میں"اصحابِ صفہ" کی تفصیلات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ایک خاص الخاص مقام عطا کیا گیا تھا۔ وہ ایک خاص چبوترے پر قرآن پاک اور احادیث نبویہ قلمبند کیا کرتے تھے۔
وہ اس کام میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ اپنے روزگار اور معاش کا کوئی کام نہ کر پاتے تھے اور دیگر صحابہ کرامؓ کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ اصحابِ صفہ کی ضروریات کا خیال رکھیں تاکہ دین اسلام کی کتابت اور علم کو محفوظ کرنے کے کام کو وہ دلجمعی سے کر سکیں۔ ایک بار حضورِ اکرم ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کو اپنے گھر کے کاموں کے لئے خادم کی ضرورت پڑی تو حضور نے انہیں بتایا کہ خادموں کو "اصحاب صفہ" کی خدمت کے لئے مخصوص کیا گیا ہے اور اپنی بیٹی کو کچھ تسبیحات بتا کے رخصت کر دیا۔ اس طرح ان لکھنے لکھانے والے صحابہ کرامؓ کو اپنی بیٹی پر ترجیح دی۔
ہم جس فتنوں کے دور میں زندہ ہیں، یہ میڈیا کا دور کہلاتا ہے، اس دور میں دین کی تعلیمات کا ابلاغ، اخلاقی اقدار کا تذکرہ، اصلاح معاشرہ کی خاطر قلم اٹھانا، نیکی کا فروغ اور برائی کو روکنا اسی طرح ایک جہاد ہے جیسے ابتدائی دور میں تھا۔ پہلے پیغامات قاصد کے ذریعے بھیجے جاتے تھے، اب ہوا کے دوش پر ہر طرح کے اچھے برے پیغامات موبائل پر فوراً مل جاتے ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ لکھا کس نے ہے؟ بس فارورڈ ہوتے ہوتے کہیں سے آ گئے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس دور میں سچائی کو لکھنا، معاملے کی تہہ تک پہنچنا، جھوٹی خبروں کی تحقیق کرنا، امت مسلمہ کی اصلی خبریں جو میڈیا نہیں دکھاتا، انہیں آگے پہنچانا، ہر باضمیر مسلمان کی ذمہ داری، قلم کے تقدس کا تقاضا ہے اور بہرحال یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایمان کا راستہ کبھی آسان نہیں رہا۔ یہ اسلام کا زاویہء نگاہ ہے اور ہر مسلمان اسی زاویہ سے دیکھتا ہے۔
دوسری طرف موجودہ دور میں فری لانسنگ کے ذریعے سے پیسے کمانے کا رحجان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور بہت سے تعلیم یافتہ افراد کونٹینٹ رائٹنگ کے ذریعے سے معاشی ضروریات پوری کر رہے ہیں بلکہ مغربی میڈیا کے زیرِ اثر ایک نئی اصطلاح "گھوسٹ رائٹنگ" متعارف کروائی گئی ہے، جس میں کتاب کوئی اور لکھتا ہے اور پیسے لے کر وہ اپنی تحریر بیچ دیتا ہے اور خریدار اسے اپنے نام سے شائع کروا کے بزعم خود مصنف بن جاتا ہے۔ اصل لکھاری کا نام کسی کو معلوم نہیں ہوتا اور کتاب پر جس کا نام درج ہوتا ہے وہ مصنف نہیں ہوتا۔
اس صورت حال میں دو قباحتیں ہیں۔ ایک تو یہ دھوکہ ہے جو آپ قارئین کو دے رہے ہیں۔ جس نے کتاب لکھنے کے لئے محنت کی، وقت لگایا، مطالعہ کیا، پھر اسے الفاظ کے قالب میں ڈھالا، اس کی محنت نظر سے اوجھل ہوگئی۔ جس نے صرف پیسے خرچ کرکے کتاب اپنے نام کروا لی وہ مصنف کے ٹائٹل کا حق دار ہی نہیں ہے، نہ خیالات اس کے ہیں، نہ تحقیق اس کی ہے، نہ اس نے دماغ سوزی کی ہے بلکہ وہ ایک طرح کا چور ہے لیکن معاشرے میں اس نے اپنا ایک امیج بطور مصنف بنا لیا ہے۔
اب اسے مختلف ادبی پروگراموں میں مدعو کیا جائے گا لیکن وہ ایک رائٹر جیسی سوچ نہیں رکھتا تو کسی دوسرے کی کیا رہنمائی کرے گا؟ اگر اسے ادبی مقابلہ جات میں بطور جج مقرر کیا جائے گا تو وہ تحریر کے فنی پیمانوں سے ناواقف ہونے کی بنا پر غلط فیصلے کرے گا اور انعام کسی ایسی تحریر کو دے دے گا جو اس انعام کی حق دار نہیں یا اصل حق دار کو اس کے حق سے محروم کر دے گا۔
قرآن پاک میں سورہء الحجرات کے اندر مسلمانوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ جب کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو اس کی تصدیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ انجانے میں تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو۔ (آیت نمبر 6)۔
اس آیت کی روشنی میں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ جو پیغام دینے والا انسان ہے وہ مومن ہے یا فاسق ہے، اس کا نام کیا ہے، اس کے اعمال کیسے ہیں، خبر کا ذریعہ جاننا بہت ضروری ہے تاکہ جانچا جا سکے کہ جو معلومات دی جا رہی ہیں وہ قابلِ اعتماد ہیں یا کسی ان دیکھے دشمن کی طرف سے افواہ اڑائی جا رہی ہے۔
اگر آپ نو آموز لکھاری ہیں تو اپنی تحریر فنی ماہرین یا اساتذہ کو دکھائیے، ایڈیٹرز کے مشورے لیجئے، اچھے لکھاریوں کی کتابیں پڑھئیے، یوٹیوب پر ادبی چینلز سنئیے۔ وقت اور محنت لگائیے، ایک دن آپ لکھاری بن جائیں گے، سہج پکے سو میٹھا ہو۔ اگر آپ کسی کی تحریر کو پسند کرکے کاپی کرتے ہیں تو مصنف کا نام ساتھ لازمی لکھئیے ورنہ یہ کام "ادبی سرقہ" کہلائے گا اور اخلاقی طور پر ممنوع بھی ہے۔
میرا نقطہء نظر، یہ ہے اگر آپ کسی کمپنی کی مصنوعات کا ریویو لکھتے ہیں یا تفصیل بیان کرتے ہیں اور اس کا معاوضہ لیتے ہیں یا کسی اکیڈمی کو تعلیمی مضامین بطور سلیبس تیار کرکے دیتے ہیں تو یہ ایک جاب ہے اور بظاہر اس میں کوئی حرج نہیں لگتا لیکن اگر آپ کسی غیر لکھاری شخص کو کتاب لکھ کے اس کے نام سے شائع کروا رہے ہیں تو یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے۔
جو شخص مصنف نہیں کرتا ہے، معاشرے میں اسے مصنف کے طور پر متعارف کروا کے آپ ادب کا مذاق بنا رہے ہیں اور اپنی قوم پر ظلم کر رہے ہیں۔ جیسے ایک ڈاکٹر، چیٹنگ کرکے میڈیکل میں پاس ہو بھی جائے تو وہ پروفیشنل ڈاکٹر نہیں بن سکتا اور مریضوں کی جان سے کھیلے گا اسی طرح کسی سے کتاب لکھوا کے بھی کوئی مصنف نہیں بن سکتا، وہ قوم کے دماغوں سے کھیلے گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ قوم کو کسی گمراہی کے کھڈ میں گرا دے۔