Sunday, 07 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ismat Usama
  4. Huzoor Se Mohabbat Ke Taqaze

Huzoor Se Mohabbat Ke Taqaze

حضور ﷺ سے محبت کے تقاضے

امام مالکؒ نے فرمایا تھا کہ اگر امت مسلمہ، اپنے نبی ﷺ کی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتی تو اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔

آج امت مسلمہ بشمول پاکستان، طرح طرح کے عذابوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے، لمحہء فکریہ ہے کہ کیا ہم اپنے نبی ﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کر رہے ہیں؟ جب بی جے پی حکومت کی ترجمان "نوپور شرما" نے عالم اسلام کو للکارتے ہوئے رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے تو گویا سوۓ ہوۓ مسلمان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور اپنے آقا ﷺ کی ناموس پہ حملے کے خلاف احتجاجاً سڑکوں پہ نکل آۓ، ریلیاں اور مظاہرے کر کے بھارت کی ہرزہ سرائی پر آتش فشاں کی مانند پھٹ پڑے۔

عرب ممالک نے بروقت بھارتی مصنوعات کا مقاطعہ کر کے اسے زک پہنچائی کہ ہندو بنیا، مال کی زبان سمجھتا ہے۔ پاکستانی عوام نے ناموسِ رسالت کی خاطر مظاہروں اور ریلیوں میں شامل ہو کر اپنے آقاؑ سے محبت کا اظہار کیا۔ جماعتِ اسلامی کے کارکنان نے انڈین ایمبیسی پہنچ کے اپنا غم و غصہ ظاہر کیا۔ ایک بھارتی چینل کو پاکستانیوں نے ہیک کر کے "یانبی، سلام علیک" کی نعت بھارتیوں کو سنا کے بتایا کہ وہ ایسا جواب بھی دے سکتے ہیں۔

مسلمان اپنے آقاؑ سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔ یہ وہ محبت ہے جو صدیوں کا سفر کرتے ہوئے ہم تک پہنچی ہے۔ یہ بہت طاقت ور محبت ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے تہجد کی نمازوں میں اپنے ہر امتی کی بخشش کی خاطر مصلے کو آنسوؤں سے تر کیا ہے، امت کو اپنے نبی کا یہ احسان بھولا نہیں ہے۔

یہ وہ محبت ہے کہ حضرت بلال حبشیؓ کو تپتی ریت پہ لٹا کے، سینے پہ بھاری پتھر رکھ کے بھی مٹائی نہ جا سکی۔

یہ وہ محبت ہے جس کے سبب، یارغار صدیق اکبر ؓ، سانپ کا ڈنگ برداشت کرتے رہے۔

یہ وہ محبت ہے جس نے دعا بن کر، حضرت عمر فاروقؓ کو مسلمان کر دیا۔

یہ وہ محبت ہے، جس کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، آقاؑ کے وضو کا بچا ہوا پانی اپنے چہروں پہ ملتے تھے۔

یہ وہ محبت ہے جس نے حضرت اویس قرنی کے دل میں گھر کیا تو وہ دور رہ کر بھی عاشق رسول کہلاۓ۔

یہ وہ محبت ہے جس کے سبب، آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے مدینہ تک ریلوے لائن بچھانے کے لئے الگ شہر بسایا تاکہ پتھروں اور لوہے کے کوٹنے کی آوازیں، مدینۃ النبی تک پہنچنے نہ پائیں۔

اس محبت کی رونمائی میں کبھی ترکھانوں کا بیٹا غازی علم دین بازی لے جاتا ہے۔

کبھی یہ محبت عبدالرحمٰن چیمہ کی صورت جرمنی میں جلوہ افروز ہوتی ہے۔

کبھی کوئی ممتاز قادری، گستاخوں کو رائفل کے دھوئیں سے خاموش کرواتا ہے۔

شہادتوں کا یہ سلسلہ تا قیامت پروانہ وار جاری رہے گا، کوئی امت کا بیٹا، امت کا دل ٹھنڈا کرتا رہے گا، لیکن اس محبت کا ایک رخ اسوہء حسنہ کی پیروی بھی ہے۔ حضور ﷺ کی حیات طیبہ کے بارے میں مطالعہ کرنا اور پھر اپنی زندگی کو اس علم کی روشنی میں عمل میں ڈھالنا اصل کام ہے۔ ان کے مشن کی پیروی کرتے ہوئے دین کی تعلیمات کو پھیلانا۔ اس محبت کا تیسرا رخ فتنہء قادیانیت کے چیلنج کو سمجھنا اور اس کا توڑ کرنا بھی ہے۔

قادیانی جو حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے بلکہ نعوذ باللہ، اپنے کسی مرزا کو آخری نبی بنا رکھا ہے، ان کی ریشہ دوانیاں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ افسوس ناک صورت حال ہے کہ حکومتی سطح پر ان کو کنٹرول نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ وطن عزیز پاکستان کے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز ہیں جب کہ آئین پاکستان کی رو سے اس کی اجازت نہیں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور اگر اسے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے محبت ہے تو کسی قادیانی سے رابطہ نہ رکھے، نہ کوئی ہمدردی جتاۓ۔ قادیانی ملک سے باہر بھی وطن عزیز کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں اور ان کے رابطے یہودیوں سے جا ملتے ہیں۔ عوام اپنے ووٹوں سے جسے منتخب کر کے پاکستان کا حکمران بنائیں، اسے کم از کم حلف میں"خاتم النبیین" بولنا آنا چاہیے۔

دہن میں زباں، تمہارے لئے

بدن میں ہے جاں تمہارے لئے

Check Also

Neelgon Panion Ka Safar (2)

By Aisha Fawad