Dene Mein Kami Karne Walay
دینے میں کمی کرنے والے
بچپن میں ہم سہیلیاں، کانچ کی چوڑی کو توڑ کے اس کے ذرے دیکھا کرتی تھیں، جس کے ٹکڑے بڑے رہتے، اسے کہا جاتا کہ تمہارا دل مضبوط ہے اور جس کے ذرے باریک ہوتے اس کا دل چھوٹا قرار پاتا۔ خیر یہ تو بچپن کا ایک کھیل تھا، بڑے ہونے پر اردو ادب کے توسط سے ایک لفظ "اعلیٰ ظرف" نظر سے گذرا جس کا معانی "بڑا پیمانہ" سمجھایا گیا، اصطلاحا" دوسرے انسانوں سے اچھا سلوک کرنے والا، ان کی خطاؤں سے درگزر کرنے والا، حق سے زیادہ عطا کرنے والا انسان مراد لیا گیا مگر اس وقت تک اس کے مکمل معانی سمجھ میں نہیں آۓ تھے جب تک عملی زندگی میں قدم نہ رکھا تھا۔
مختلف طرح کے انسانوں سے واسطہ پڑا تو معلوم ہوا کہ اس جہان میں اعلیٰ ظرف لوگ خال خال ہیں، زیادہ تر انسان کم ظرف یا تنگ دل ہی پاۓ جاتے ہیں (الا ماشاءاللہ)۔ قرآن پاک میں اس طرح کی نفسیات کے حامل افراد کے بارے میں یوں بیان کیا گیا۔ ترجمہ: "کم تولنے والوں کے لئے خرابی ہے، وہ لوگ جب دوسروں سے لیں تو پورا وصول کریں اور جب انھیں ماپ یا تول کر دیں تو کم کردیں، کیا ان لوگوں کو گمان نہیں کہ انھیں اٹھنا ہے ایک بڑے عظمت والے دن کے لئے جب سب لوگ اللہ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے "۔ (سورہء المطففین، آیات 1 تا 6)۔
ان آیات میں خریدو فروخت کے وقت جو ڈنڈی ماری جاتی ہے، اس کا بیان ہے اور یہ بھی کہ آخرت میں جب رب العالمین کے حضور کھڑے ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے گی تو کسی کا حال چھپا نہیں رہ جاۓ گا لہذا اس وقت سے ڈرنا چاہئیے۔ بندگانِ الہی کے حقوق کی ادائیگی میں کمی کرنا، ایک معاشرتی رویہ بن چکا ہے اور ظلم و ناانصافی کی ایک صورت ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہ برائی اتنی عام ہے کہ لوگ اسے معمولی سمجھتے ہیں۔
اس کی کئی صورتیں ہیں مثلاً اداروں اور محکموں میں افسران کا کسی ورکر کی قابلیت اور میرٹ کا انکار کردینا، اس کی پروموشن میں تاخیر کرنا، کسی کی عمدہ پرفارمینس پر حوصلہ افزائی کرنے سے قصداً خاموش رہنا، اقربا پروری، خاندانوں میں حقِ وراثت میں کمی بیشی کرنا، خصوصاََ بہنوں، بیٹییوں اور یتیموں کو ان کے حق سے محروم رکھنا، شوہر کا اپنی بیوی کو نان نفقہ سے محروم اور تنگ دست رکھنا، غریب رشتہ داروں سے میل جول نہ رکھنا، ان کی خوشی غمی میں شامل نہ ہونا، انھیں اپنی تقریبات میں مدعو نہ کرنا، معاشرتی اسٹیٹس رکھنے والے خاندانوں (مثلاً بزنس مین یا جاگیر داروں) کا ایک دوسرے سے گہرے روابط رکھنا اور کمزور سفید پوش طبقے سے میل جول سے پرہیز کرنا۔
حال یہ ہے کہ جس انسان کے پاس کوئی عہدہ یا منصب ہوتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے کسی کم مرتبہ شخص سے مصافحہ بھی نہ کرنا پڑے، نہ سلام کا جواب دینے کی زحمت کرنی پڑے۔ واٹس ایپ پر ایسے افراد نے اپنی سیٹنگ تبدیل کر رکھی ہوتی ہے کہ میسج وصول کرنے پر بلیو ٹک شو نہ ہوں تاکہ دوسرے کے میسج سے انجان بنے رہیں اور جوابی میسج نہ ہی بھیجنا پڑے۔۔ الامان والحفیظ۔ بقول خود:
سر موسم کچھ نہیں کہتے اے دوست
سرد چہرے، سرد لہجے مگر توڑ جاتے ہیں!
درج بالا چند معاشرتی برائیوں اور رویوں کا ذکر کرنے کا مقصد صرف اصلاح کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہے، اس لئے کہ بہرحال مسلمانوں کو اپنے تعلقات اور معاملات کے بارے میں اپنی جواب دہی کی فکر کرنا ضروری ہے۔ کیا ہو کہ اگر ہم دوسروں کو ان کے حقوق ادا کرنے میں بخل اور پہلو تہی سے کام لیتے ہیں، کہیں اس کی وجہ سے رب العزت ہمیں اپنی جنتوں سے محروم نہ کردے!