Peetal Ki Dunya
پیتل کی دُنیا

ہندوستان کی فلمی اور کرکٹ کی دنیا بہ ظاہر چمکتی دمکتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں رنگ بہ رنگی روشنیاں تو بہت ہیں مگر ہم دردی اور خلوص کی گرمجوشی کم، جہاں لوگ تالیوں کے شور اور روشنیوں کی چکا چُوند میں کئی آنکھوں میں نمی نہیں دیکھ پاتے۔ شہرت کے اس بے رحم دائرے میں چند بہ ظاہر پُرکشش چہرے ایسے ہیں جو بلندی پر پہنچ کر اپنے ہی سچے سُچے رشتوں سے دُور، بہت دُور ہو گئے۔ البتہ وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے سر تو آسمان پر ہیں مگر پیر زمین پر جمے ہیں۔
انوشکا شرما بولی ووڈ کی مشہور اداکارہ، ورات کوہلی کی بیوی۔ اُس کی شادی کی خبر اس کی دادی، چچا اور پھوپھی کو ٹیلی ویژن سے ملی۔ نہ دعوت گئی، نہ اطلاع۔ اپنی شادی میں اس نے اپنے خاندان کے صِرف بیس افراد کومدعو کیا۔ شاید وہ اپنے عام سادہ گھرانے پر فخر کے بجائے اپنی اصل شناخت ظاہر کرتے ہوئے کنی کترا رہی تھی۔
بھارتی کرکٹر سریش رائنا نے بھی اپنے آپ کو شہرت کی روشنی کا اسیر کر لیا۔ وہ اپنے بچپن میں جس چچا کی گود میں کھیلا، جن ہاتھوں نے اسے اٹھایا، اسی چچا کو اپنی شادی پر نہ بلایا۔ وہ بوڑھا چچا جب ٹی وی پر اپنے بھتیجے کی بارات دیکھ رہا تھا تو آنسو پونچھتے ہوئے کہہ رہا تھا، "میں نے اسے چلنا سکھایا، مگر آج وہ مجھ سے نظریں چرا گیا"۔
جسپریت بمرا کا قصہ اور بھی دل گیر ہے۔ اس کا چوراسی سالہ دادا، جو سترہ برس بعد اپنے پوتے کو دیکھنے احمد آباد آیا تھا، اُسے دروازے سے ہی لوٹا دیا گیا۔ اُس کے منہ پر دروازہ بند کر دیا گیا۔ بوڑھا دادا بہ غرضِ خودکشی صابرمتی ندی میں کود کر مر گیا۔ یہ وہ درد ناک لمحہ تھا جب محبت مر گئی اور شہرت جیت گئی۔ مہندر سنگھ دھونی نے جب اپنی زندگی پر فلم بنوائی تو اس میں اپنے سگے بھائی کو شامل کرنا تو درکنار، اس کا تذکرہ تک شامل نہ کیا۔
اسی چمکتی دمکتی مصنوعی دنیا میں چند ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے بلندی کو سر پر سوار نہ کیا، اپنی اوقات میں رہے۔ کرکٹر بھوونیشور کمار نے اپنی شادی کی خوشی کو اجتماعی مسرت کا موقع بنا دیا۔ اس نے اپنی شادی پر اپنے پورے گاؤں کو مدعو کیا اور لڑکیوں کے ایک اسکول کو خطیر رقم عطیہ کی۔ بدایوں کی زمین سے اٹھنے والے نوازالدین صدیقی نے ممبئی کی روشنیوں میں بھی اپنے لہجے سے مٹی نہیں جھاڑی۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ کامیابی نے کیا بدلا تو وہ مسکرا کر بولا"بس کپڑے بدلے ہیں، دل نہیں"۔
بھارتی اداکار عرفان خان کی تشکر آمیز خاموشی میں ایک بُلند صدا پنہاں تھی۔ جب بیماری نے جسم توڑا، تو اُس کی زبان پر شکوہ نہیں بلکہ شکر تھا۔ اس نے اپنے آخری پیغام میں لکھا "میں اپنی زندگی کے ہر لمحے کو شکرکے ساتھ جیتا ہوں"۔ اداکار راجکمار راؤ کی کامیابی میں بھی ایک نرمی اور متانت ہے۔ وہ اپنی ہر فلم کے بعد اپنی ماں سے دعا لیتے ہوئے کہتا ہے "ماں کی دعا ہی میرا سب سے بڑا ایوارڈ ہے"۔
1954ء میں جب پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف اوول ٹیسٹ میں تاریخی فتح حاصل کی تو یہ فتح ایک سابق کولونی کی اپنے سابق حُکم ران مُلک پر تھی۔
اُس کامیابی کے پیچھے ایک نام سب سے زیادہ نمایاں ہوا، فضل محمود۔
برطانوی اخباروں نے انہیں The Blue-Eyed Hero of The Oval کہا۔
مگر ان کی نیلگوں آنکھوں سے زیادہ دل کی سادگی دلکش تھی۔ شہرت کے باوجود وہ لاہور کی گلیوں میں عام شہری کی طرح سائیکل چلاتے، عام لوگوں کے ساتھ قہقہے لگاتے اور بچوں سے بےتکلف ہو جاتے تھے۔ جب ان سے جب پوچھا گیا "آپ کو ہیرو بن کر کیسا لگتا ہے؟" تو وہ مسکرا کر بولے "کرکٹ میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے، اصل ہیرو تو وہ ہوتا ہے جو دِل فتح کرے"۔
محمد یوسف (سابق یوسف یوحنا) بین الاقوامی شہرت یافتہ کرکٹر ہی نہیں نہایت خلیق اور عاجز انسان ہیں۔ ایک انٹرویو میں اس سادہ بندے نے اپنی فتوحات پر بات کرتے ہوئے کہا تھا۔
"دنیا کی سب سے بڑی فتح اپنی خواہشوں کو قابو میں رکھنا ہے"۔
عبدالقادر کے عجز کا تو میں خود عینی شاہد ہوں۔ اس "جادوگر اسپنر" نے دنیا کو اسپن گیند بازی کی جانب متوجہ کیا۔ لاہور چھاؤنی کے صدر بازار سے ملحقہ میدان سے کرکٹ کا آغاز کرنے والا یہ زمین زاد کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بعد جب کوچ بن کر صدر اور دھرم پورہ کی گلیوں میں پھرتا تو ایک محنت کش کی جَون میں آ جاتا تھا۔ اس نے اپنے شاگردوں کے ساتھ استاد نہیں، باپ کا سا سلوک روا رکھا۔
چند لوگ اس دنیا کو سونے کا کٹورا سمجھتے ہیں، بیشتر مَٹی کی گڑوی۔
یہ ہر آدمی پر منحصر ہے کہ وہ دور سے دمکتے سراب کی جانب بھاگے اور پیاسا رہ جائے یا رہٹ کے تازہ پانیوں سے سیراب ہو جائے۔

